مجھ سا جہان میں نادان بھی نہ ہو

مجھ سا جہان میں نادان بھی نہ ہو
کر کے جو عشق کہتا ہے نقصان بھی نہ ہو
کچھ بھی نہیں ہوں مگر اتنا ضرور ہے
بِن میرے شائد آپ کی پہچان بھی نہ ہو
آشفتہ سر جو لوگ ہیں مشکل پسند ہیں
مشکل نہ ہو جو کام تو آسان بھی نہ ہو
محرومیوں کا ہم نے گلہ تک نہیں کیا
لیکن یہ کیا کہ دل میں یہ ارمان بھی نہ ہو
خوابوں سی دلنواز حقیقت نہیں کوئی
یہ بھی نہ ہو تو درد کا درمان بھی نہ ہو
رونا یہی تو ہے کہ اسے چاہتے ہیں ہم
اے سعد جس کے ملنے کا امکان بھی نہ ہو



قہر ہے موت ہے قضا ہے عشق

قہر ہے موت ہے قضا ہے عشق
سچ تو يہ ہے بری بلا ہے عشق

اثر غم ذرا بتا دينا
وہ بہت پوچھتے ہيں کيا ہے عشق

آفت جاں ہے کوئی پردہ نشيں
مرے دل ميں آ چھپا ہے عشق

کس ملاحت سرشت کو چاہا
تلخ کامی پہ با مزا ہے عشق

ہم کو ترجيح تم پہ ہے يعني
دل رہا حسن و جاں رہا عشق

ديکھ حالت مری کہيں کافر
نام دوزخ کا کيوں دھرا ہے عشق

ديکھیے کس جگہ ڈبو دے گا
ميری کشتی کا نا خدا ہے عشق

آپ مجھ سے نباہيں گے سچ ہے
با وفا حسن بے وفا ہے عشق

قيس و فرہاد وامق و مومن
مر گئے سب ہی کيا وبا ہے عشق