قہر ہے موت ہے قضا ہے عشق

قہر ہے موت ہے قضا ہے عشق
سچ تو يہ ہے بری بلا ہے عشق

اثر غم ذرا بتا دينا
وہ بہت پوچھتے ہيں کيا ہے عشق

آفت جاں ہے کوئی پردہ نشيں
مرے دل ميں آ چھپا ہے عشق

کس ملاحت سرشت کو چاہا
تلخ کامی پہ با مزا ہے عشق

ہم کو ترجيح تم پہ ہے يعني
دل رہا حسن و جاں رہا عشق

ديکھ حالت مری کہيں کافر
نام دوزخ کا کيوں دھرا ہے عشق

ديکھیے کس جگہ ڈبو دے گا
ميری کشتی کا نا خدا ہے عشق

آپ مجھ سے نباہيں گے سچ ہے
با وفا حسن بے وفا ہے عشق

قيس و فرہاد وامق و مومن
مر گئے سب ہی کيا وبا ہے عشق

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں