تم اگر یوں ہی نظریں ملاتے رہے


تم اگر یوں ہی نظریں ملاتے رہے

مے کشی میرے گھر سے کہاں جائے گی

اور یہ سلسلہ مستقل ہو تو پھر

بے خودی میرے گھر سے کہاں جائے گی

اک زمانے کے بعد آئی ہے شامِ غم

شامِ غم میرے گھر سے کہاں جائے گی

میری قسمت میں ہے جو تمہاری کمی

وہ کمی میرے گھر سے کہاں جائے گی

شمع کی اب مجھے کچھ ضرورت نہیں

نام کو بھی شبِ غم میں ظلمت نہیں

میرا ہر داغِ دل کم نہیں چاند سے

چاندنی میرے گھر سے کہاں جائے گی

تو نے جو غم دیے وہ خوشی سے لیے

تجھ کو دیکھا نہیں پھر بھی سجدے کیے

اتنا مضبوط ہے جب عقیدہ میرا

بندگی میرے در سے کہاں جائے گی

ظرف والا کوئی سامنے آئے تو

میں بھی دیکھوں ذرا اس کو اپنائے تو

میری ہم راز یہ، اس کا ہم راز میں

بے کسی میرے گھر سے کہاں جائے گی

جو کوئی بھی تیری راہ میں مر گیا

اپنی ہستی کووہ جاوداں کر گیا

میں شہیدِ وفا ہو گیا ہوں تو کیا

زندگی میرے گھر سے کہاں جائے گی

9 تبصرے: