میں مر مٹا تو وہ سمجھا یہ انتہا تھی مری

میں مر مٹا تو وہ سمجھا یہ انتہا تھی مری
اسے خبر ہی نہ تھی خاک کیمیا تھی مری
میں چپ ہوا تو وہ سمجھا کہ بات ختم ہوئی
پھر اس کے بعد تو آواز جابجا تھی مری
جو طعنہ زن تھا مری پوشش دریدہ پر
اسی کے دوش رکھی ہوئی قبا تھی مری
میں اس کو یاد کروں بھی تو یاد آتا نہیں
میں اس کو بھول گیا ہوں یہی سزا تھی مری
شکست دے گیا اپنا غرور ہی اس کو
وگرنہ اس کے مقابل بساط کیا تھی مری
کہیں دماغ کہیں دل کہیں بدن ہی بدن
ہر اک سے دوستی یاری جدا جدا تھی مری
کوئی بھی کوئے محبت سے پھر نہیں گزرا
تو شہر عشق میں کیا آخری صدا تھی مری
جو اب گھمنڈ سے سر کو اٹھائے پھرتا ہے
اسی طرح کی تو مخلوق خاک پا تھی مری
ہر اک شعر نہ تھا درخور قصیدہ دوست
اور اس سے طبع رواں خوب آشنا تھی مری
میں اسکو دیکھتا رہتا تھا حیرتوں سے فراز
یہ زندگی سے تعارف کی ابتدا تھی مری

نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں اور بال بناؤں کس کے لیے

نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں اور بال بناؤں کس کے لیے

وہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا میں باہر جاؤں کس کے لیے

جس دھوپ کی دل میں ٹھنڈک تھی وہ دھوپ اسی کے ساتھ گئی

ان جلتی بلتی گلیوں میں اب خاک اڑاؤں کس کے لیے

وہ شہر میں تھا تو اس کے لیے اوروں سے بھی ملنا پڑتا تھا

اب ایسے ویسے لوگوں کے میں ناز اٹھاؤں کس کے لیے

اب شہر میں اُس کا بدل ہی نہیں کوئی ویسا جانِ غزل ہی نہیں

ایوانِ غزل میں لفظوں کے گلدان سجاؤں کس کے لیے

مدت سے کوئی آیا نہ گیا سنسان پڑی ہے گھر کی فضا

ان خالی کمروں میں ناصر اب شمع جلاؤں کس کے لیے