ترکِ تعلقات پہ رویا نہ تو نہ میں

ترکِ تعلقات پہ رویا نہ تو نہ میں
لیکن یہ کیا کہ چین سے سویا نہ تو نہ میں
حالات کے طلسم نے پتھرا دیا مگر
بیتے سموں کی یاد میں کھویا نہ تو نہ میں
ہر چند اختلاف کے پہلو ہزار تھے
وا کر سکا مگر لبِ گویا نہ تو نہ میں
نوحے فصیلِ ضبط سے اونچے نہ ہو سکے
کھل کر دیارِ سنگ میں رویا نہ تو نہ میں
جب بھی نظر اٹھی تو فلک کی طرف اٹھی
برگشتہ آسمان سے گویا نہ تو نہ میں

منسوب تھے جو لوگ میری زندگی کے ساتھ

منسوب تھے جو لوگ میری زندگی کے ساتھ
اکثر وہی ملے ہیں بڑی بے رُخی کے ساتھ
یوں تو مَیں ہنس پڑا ہُوں تمہارے لیے مگر
کتنے ستارے ٹوٹ پڑے اِک ہنسی کے ساتھ
فرصت مِلے تو اپنا گریباں بھی دیکھ لے
اے دوست یوں نہ کھیل میری بے بسی کے ساتھ
مجبوریوں کی بات چلی ہے تو مئے کہاں
ہم نے پِیا ہے زہر بھی اکثر خوشی کے ساتھ
چہرے بدل بدل کے مجھے مل رہے ہیں لوگ
اتنا بُرا سلوک میری سادگی کے ساتھ
اِک سجدۂ خلوص کی قیمت فضائے خلد
یاربّ نہ کر مذاق میری بندگی کے ساتھ
محسن کرم بھی ہو جس میں خلوص بھی
مجھ کو غضب کا پیار ہے اُس دشمنی کے ساتھ

سوزِ غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا

سوزِ غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا
جا تجھے کشمکشِ دہر سے آزاد کیا
وہ کریں بھی تو کن الفاظ میں تیرا شکوہ
جن کو تیری نگہِ لطف نے برباد کیا
دل کی چوٹوں نے کبھی چین سے رہنے نہ دیا
جب چلی سرد ہوا، میں نے تجھے یاد کیا
اے میں سو جان سے اس طرزِ تکلّم کے نثار
پھر تو فرمائیے، کیا آپ نے ارشاد کیا
اس کا رونا نہیں کیوں تم نے کیا دل برباد
اس کا غم ہے کہ بہت دیر میں برباد کیا
اتنا مانوس ہوں فطرت سے، کلی جب چٹکی
جھک کے میں نے یہ کہا، مجھ سے کچھ ارشاد کیا
مجھ کو تو ہوش نہیں تم کو خبر ہو شاید
لوگ کہتے ہیں کہ تم نے مجھے برباد کیا

جب ہجر کی آگ جلاتے ہیں کچھ لوگ بہت یاد آتے ہیں

جب ہجر کی آگ جلاتے ہیں کچھ لوگ بہت یاد آتے ہیں
آنکھوں میں راکھ سجاتے ہیں کچھ لوگ بہت یاد آتے ہیں
موسم کے رنگ بدلتے ہیں لہرا کر جھونکے آتے ہیں
شاخوں سے بور اڑاتے ہیں کچھ لوگ بہت یاد آتے ہیں
یادوں کی گرم ہواؤں سے آنکھوں کی کلیاں جلتی ہیں
جب آنسو درد بہاتے ہیں کچھ لوگ بہت یاد آتے ہیں
بے درد ہوائیں سہ سہ کر سورج کے ڈھلتے سائیوں میں
جب پنچھی لوٹ کے آتے ہیں کچھ لوگ بہت یاد آتے ہیں
جب لوگ جہاں کے قصوں میں دم بھر کا موقعہ ملتے ہی
لفظوں کے تیر چلاتے ہیں کچھ لوگ بہت یاد آتے ہیں
یہ عشق محبت کچھ بھی نہیں فرصت کی کارستانی ہے
جب لوگ مجھے سمجھاتے ہیں کچھ لوگ بہت یاد آتے ہیں
جب کالے بادل گھر آئیں اور بارش زور سے ہوتی ہو
دروازے شور مچاتے ہیں کچھ لوگ بہت یاد آتے ہیں
جب آنگن میں خاموشی اپنے ہونٹ پہ انگلی رکھے ہو
سناٹے جب در آتے ہیں کچھ لوگ بہت یاد آتے ہیں
جب سرد ہوا کا بستر ہو اور یاد سے اس کی لپٹے ہوں
تب نغمے سے لہراتے ہیں کچھ لوگ بہت یاد آتے ہیں
جب اوس کے قطرے پھولوں پر کچھ موتی سے بن جاتے ہیں
تب ہم بھی اشک بہاتے ہیں کچھ لوگ بہت یاد آتے ہیں

ہم نے ہی لَوٹنے کا ارادہ نہیں کیا

ہم نے ہی لَوٹنے کا ارادہ نہیں کیا
اس نے بھی بھول جانے کا وعدہ نہیں کیا
دکھ اوڑھتے نہیں کبھی جشنِ طرب میں ہم
ملبوس دل کو تن کا لبادہ نہیں کیا
جو غم ملا ہے بوجھ اٹھایا ہے اس کا خود
سر زیرِ بارِ ساغر و بادہ نہیں کیا
کارِ جہاں ہمیں بھی بہت تھے سفر کی شام
اس نے بھی التفات زیادہ نہیں کیا
آمد پہ تیری عطر و چراغ و سَبو نہ ہوں
اتنا بھی بود و باش کو سادہ نہیں کیا

وہ کیوں نہ روٹھتا ، میں نے بھی تو خطا کی تھی

وہ کیوں نہ روٹھتا ، میں نے بھی تو خطا کی تھی
بہت خیال رکھا تھا بہت وفا کی تھی
سنا ہے ان دنوں ہم رنگ ہیں بہار اور آگ
یہ آگ پھول ہو میں نے بہت دعا کی تھی
نہیں تھا قرب میں بھی کچھ مگر یہ دل ، مرا دل
مجھے نہ چھوڑ ، بہت التجا کی تھی
سفر میں کشمکش مرگ و زیست کے دوران
نجانے کس نے مجھے زندگی عطا کی تھی
سمجھ سکا نہ کوئی بھی مری ضرورت کو
یہ اور بات کہ اک خلق اشتراکی تھی
یہ ابتدا تھی کہ میں نے اسے پکارا تھا
وہ آ گیا تھا ظفر اس نے انتہا کی تھی