یاد آتا ہے روز و شب کوئی

یاد آتا ہے روز و شب کوئی
ہم سے روٹھا ہے بے سبب کوئی
لبِ جو چھاؤں میں درختوں کی
وہ ملاقات تھی عجب کوئی
جب تجھے پہلی بار دیکھا تھا
وہ بھی تھا موسمِ طرب کوئی
کچھ خبر لے کے تیری محفل سے
دور بیٹھا ہے جاں بلب کوئی
نہ غمِ زندگی نہ دردِ فراق
دل میں یونہی سی ہے طلب کوئی
یاد آتی ہیں دور کی باتیں
پیار سے دیکھتا ہے جب کوئی
چوٹ کھائی ہے بارہا لیکن
آج تو درد ہے عجب کوئی
جن کو مٹنا تھا مٹ چکے ناصر
اُن کو رسوا کرے نہ اب کوئی

تمھارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا

تمھارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا
نہ تھا رقیب تو آخر وہ نام کس کا تھا
وہ قتل کر کے مجھے ہر کسی سے پوچھتے ہیں
یہ کام کس نے کیا ہے، یہ کام کس کا تھا
وفا کریں گے، نباہیں گے، بات مانیں گے
تمھیں بھی یاد ہے کچھ، یہ کلام کس کا تھا
رہا نہ دل میں وہ بےدرد اور درد رہا
مقیم کون ہوا ہے، مقام کس کا تھا
نہ پوچھ گچھ تھی کسی کی وہاں نہ آؤ بھگت
تمھاری بزم میں کل اہتمام کس کا تھا
تمام بزم جسے سن کے رہ گئی مشتاق
کہو، وہ تذکرہء نا تمام کس کا تھا
گزر گیا وہ زمانہ، کہوں تو کس سے کہوں
خیال دل کو مرے صبح و شام کس کا تھا
ہر اک سے کہتے ہیں کیا داغ بے وفا نکلا
یہ پوچھے ان سے کوئی وہ غلام کس کا تھا

ہم کہ چہرے پہ نہ لائے کبھی ویرانی کو

ہم کہ چہرے پہ نہ لائے کبھی ویرانی کو
یہ بھی کافی نہیں‌ظالم کی پشیمانی کو
کارِ فرہاد سے یہ کم تو نہیں‌جو ہم نے
آنکھ سے دل کی طرف موڑ دیا پانی کو
شیشہء شوق پہ تُو سنگِ ملامت نہ گرا
عکسِ گل رنگ ہی کافی ہے گراں جانی کو
تُو رکے یا نہ رکے فیصلہ تجھ پر چھوڑا
دل نے در کھول دئیے ہیں‌تری آسانی کو
دامنِ چشم میں تارا ہے نہ جگنو کوئی
دیکھ اے دوست مری بے سر و سامانی کو
ہاں مجھے خبط ہے سودا ہے جنوں ہے شاید
دے لو جو نام بھی چاہو مری نادانی کو
جس میں مفہوم ہو کوئی نہ کوئی رنگِ غزل
سعد جی آگ لگے ایسی زباں دانی کو

نہیں زخم دل اب دکھانے کے قابل

نہیں زخم دل اب دکھانے کے قابل
یہ ناسور ہے بس چھپانے کے قابل
تیرے رو برو آوں کس منہ سے پیار
نہیں اب رہا منہ دکھانے کے قابل
وفور غم یاس نے ایسا گھیر ا
نہ چھوڑا کہیں آنے جانے کے قابل
شب ہجر کی تلخیاں کچھ نہ پوچھو
نہیں داستاں یہ سنانے کے قابل
یہ ٹھکرا کے دل پھر کہا مسکرا کر
نہ تھا دل یہ دل سے لگانے کے قابل
جو دیکھا مجھے پھیر لیں اپنی آنکھیں
نہ جانا مجھے منہ لگانے کے قابل
جو دیکھا مجھے پھیر لیں اپنی آنکھیں
نہ جانا مجھے منہ لگانے کے قابل
تیری بزم میںسینکڑوں آئے بیٹھے
ہمیں ایک تھے کیا اٹھانے کے قابل
یہ کافر نگاہیں یہ دلکش ادائیں
نہیں کچھ رہا اب بچانے کے قابل
دیار محبت کے سلطاں سے کہہ دو
یہ ویراں کدہ ہے بسانے کے قابل
کیا ذکر دل کا تو ہنس کر وہ بولے
نہیں ہے یہ د ل رحم کھانے کے قابل
نگاہ کرم یونہی رکھنا خدارا
نہ میں ہوں نہ دل آزمانے کے قابل
نشان کف پائے جاناں پہ یارب
ہمارا یہ سر ہو جھکانے کے قا بل
کبھی قبر مشتاق پر سے جو گزرے
کہا یہ نشاں ہے مٹانے کے قابل

کچھ دیکھنا محال اسے دیکھ کر ہوا

کچھ دیکھنا محال اسے دیکھ کر ہوا
میں آئنہ مثال اسے دیکھ کر ہوا
سب دیکھتے رہے مجھے محفل میں رشک سے
میرا عجیب حال اسے دیکھ کر ہوا
پھر چاہتی ہے شب کہ کوئی وصل ہوطلوع
یہ سلسلہ بحال اسے دیکھ کر ہوا
شاید تمام عمر کی خوشیاں سمیٹ لے
وہ دکھ جو اب کے سال اسے دیکھ کر ہوا
جیسے کوئی اجاڑ سا منظر ہو سامنے
عاصم بہت ملال اسے دیکھ کر ہوا

دل نے تیرے بارے میں پوچھا تو بہت رویا

دل نے تیرے بارے میں پوچھا تو بہت رویا
وہ شخص جو پتھر تھا ٹوٹا تو بہت رویا
یہ دل کہ جدائی کے عنوان پہ برسوں سے
چپ تھا تو بہت چپ تھا رویا تو بہت رویا
آسان تو نہیں اپنی ہستی سے گزر جانا
اترا جو سمندر میں دریا تو بہت رویا
جو شخص نہ رویا تھا تپی ہوئی راہوں میں
دیوار کے سائے میں بیٹھا تو بہت رویا
اک حرف تسلی کا اک حرف محبت کا
خود اپنے لئے اس نے لکھا تو بہت رویا
پہلے بھی شکستوں پر کھائی تھی شکست اس نے
لیکن وہ تیرے ہاتھوں ہارا تو بہت رویا
جو عہد نبھانے کی دیتا تھا دعا اس نے
کل شام مجھے تنہا دیکھا تو بہت رویا

یہ تنہا رات یہ گہری فضائیں

یہ تنہا رات یہ گہری فضائیں
اسے ڈھونڈیں کہ اس کو بھول جائیں
خیالوں کی گھنی خاموشیوں میں
گھلی جاتی ہیں لفظوں کی صدائیں
یہ رستے رہرووں سے بھاگتے ہیں
یہاں چھپ چھپ کے چلتی ہیں ہوائیں
یہ پانی خامشی سے بہہ رہا ہے
اسے دیکھیں کہ اس میں ڈوب جائیں
جو غم جلتے ہیں شعروں کی چتا میں
انہیں پھر اپنے سینے سے لگائیں
چلو ایسا مکاں آباد کر لیں
جہاں لوگوں کی آوازیں نہ آئیں