چارہ گر، ہار گیا ہو جیسے

چارہ گر، ہار گیا ہو جیسے

اب تو مرنا ہی دَوا ہو جیسے

مُجھ سے بچھڑا تھا وہ پہلے بھی مگر

اب کے یہ زخم نیا ہو جیسے

میرے ماتھے پہ ترے پیار کا ہاتھ

رُوح پر دست صبا ہو جیسے

یوں بہت ہنس کے ملا تھا لیکن

دل ہی دل میں وہ خفا ہو جیسے

سر چھپائیں تو بدن کھلتا ہے

زیست مفلس کی رِدا ہو جیسے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں