اشک جب اپنی آنکھ میں آیا ساری کہانی ختم ہوئی

اشک جب اپنی آنکھ میں آیا ساری کہانی ختم ہوئی
تم نے جب احساس دلایا ساری کہانی ختم ہوئی
تم ہی نہیں ہو دشمن اپنے ہم بھی ہیں کچھ ایسے ہی
ہم نے خود جب دل کو جلایا ساری کہانی ختم ہوئی
ساری باتیں ٹھیک تھیں تیری تو میرا میں تیرا تھا
اور مفاد جہاں ٹکرایا ساری کہانی ختم ہوئی
دھوپ کے ساتھ تھا سایہ اپنی جو اپنی پہچان بنا
شام ہوئی تو چھپ گیا سایہ ساری کہانی ختم ہوئی
باغِ ارم میں تنہا تھے ہم اپنی فکر و فہم کے ساتھ
آنچل جب کوئی لہرایا ساری کہانی ختم ہوئی
ہم دنیا کو ٹھکرا دیتے لیکن ہم سے دیر ہوئی
ہم کو دنیا نے ٹھکرایا ساری کہانی ختم ہوئی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں