جانے یہ کیسی تیرے ہجر میں ٹھانی دل نے

جانے یہ کیسی تیرے ہجر میں ٹھانی دل نے
پھر کسی اور کی کچھ بات نہ مانی دل نے
ایک وحشت سے کسی دوسری وحشت کی طرف
اب کے پھر کی ہے کوئی نقل مکانی دل نے
اب بھی نوحے ہیں جدائی کے وہی ماتم ہے
ترک کب کی ہے کوئی رسم پرانی دل نے
بات بے بات جو بھر آتی ہیں آنکھیں اپنی
یاد رکھی ہے کسی دکھ کی کہانی دل نے
ڈوبتی شام کے ویران سمے کی صورت
تھام رکھی ہے تیری ایک نشانی دل نے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں