وہ جب سے شہر خرابات کو روانہ ہُوا

وہ جب سے شہر خرابات کو روانہ ہُوا

براہِ راست مُلاقات کو زمانہ ہُوا

وہ شہر چھوڑ کے جانا تو کب سے چاہتا تھا

یہ نوکری کا بُلاوا تو اِک بہانہ ہوا

خُدا کرے تری آنکھیں ہمیشہ ہنستی رہیں

یہ آنکھیں جن کو کبھی دُکھ کا حوصلہ نہ ہُوا

کنارِ صحن چمن سبز بیل کے نیچے

وہ روز صبح کا مِلنا تو اَب فسانہ ہُوا

میں سوچتی ہوں کہ مُجھ میں کمی تھی کِس شے کی

کہ سب کا ہو کے رہا وہ، بس اِک مرا نہ ہُوا

کِسے بُلاتی ہیں آنگن کی چمپئی شامیں

کہ وہ اَب اپنے نئے گھر میں بھی پرانا ہُوا

دھنک کے رنگ میں ساری تو رنگ لی میں نے

اب یہ دُکھ ، کہ پہن کرکِسے دِکھاناہُوا

میں اپنے کانوں میں بیلے کے پُھول کیوں پہنوں

زبانِ رنگ سے کِس کو مُجھے بُلانا ہُوا

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں