وہ باتیں تری وہ فسانے ترے



وہ باتیں تری وہ فسانے ترے
شگفتہ شگفتہ بہانے ترے

بس ایک داغِ سجدہ مری کائنات
جبینیں تری ، آستانے ترے

بس ایک زخمِ نظارہ، حصہ مرا
بہاریں تری، آشیانے ترے

فقیروں کی جھولی نہ ہوگی تہی
ہیں بھر پور جب تک خزانے ترے

فقیروں کا جمگھٹ گھڑی دو گھڑی
شرابیں تری، بادہ خانے ترے


ضمیرِ صدف میں کرن کا مقام
انوکھے انوکھے ٹھکانے ترے

بہار و خزاں کم نگاہوں کے وہم
برے یا بھلے، سب زمانے ترے

عدم بھی ہے تیرا حکایت کدہ
کہاں تک گئے ہیں فسانے ترے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں