کمالِ ضبط کو خود بھی تو آزماؤں گی

کمالِ ضبط کو خود بھی تو آزماؤں گی

میں اپنے ہاتھ سےاس کی دلہن سجاؤں گی

سپرد کر کے اسے چاندنی کے ہاتھوں میں

میں اپنے گھر کے اندھیروں کو لوٹ آؤں گی

بدن کے کرب کو وہ بھی سمجھ نہ پائے گا

میں دل میں روؤں گی، آنکھوں میں مسکراؤں گی

وہ کیا گیا رفاقت کے سارے لطف گئے

میں کس سے روٹھ سکوں گی، کسے مناؤں گی

اب اُس کا فن تو کسی اور سے ہوا منسوب

میں کس کی نظم اکیلے میں گُنگناؤں گی

وہ ایک رشتہ بے نام بھی نہیں لیکن

میں اب بھی اس کے اشاروں پہ سر جھکاؤں گی

بچھا دیا تھا گلابوں کے ساتھ اپنا وجود

وہ سو کے اٹھے تو خوابوں کی راکھ اٹھاؤں گی

سماعتوں میں اب جنگلوں کی سانسیں ہیں

میں اب کبھی تری آواز سُن نہ پاؤں گی

جواز ڈھونڈ رہا تھا نئی محّبت کا

وہ کہہ رہا تھا کہ میں اُس کو بھول جاؤں گی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں