اس طرح ہوں شہر کے لوگوں میں اب بکھرا ہوا
اجنبی لوگوں پہ اپنے آپ کا دھوکا ہوا
آنکھ کے نم سے مجھے کچھ غم کا اندازہ ہوا
میں تو سمجھا تھا کہ یہ بادل بھی ہے برسا ہوا
وہ ترے ملنے کی ساعت خون میں رچ بس گئ
آج تک وہ پھول ہے گلدان میں رکھا ہوا
لوگ تنہائی سے ڈر کر جنگلوں میں آگئے
شہر کی گلیوں میں اب کہ ایسا سناٹا ہوا
وہ ترے آنے کا وعدہ وہ ترے ملنے کا شوق
ایک مدت سے ہے دل کے طاق پر رکھا ہوا
وقت نے دھندلا دئیے کیسے شناسائی کے رنگ
جس طرح یہ خواب ہو پہلے کبھی دیکھا ہوا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں