جو حرفِ حق تھا وہی جا بجا کہا سو کہا

جو حرفِ حق تھا وہی جا بجا کہا سو کہا
بلا سے شہر میں میرا لہو بہا سو بہا
ہمی کو اہلِ جہاں سے تھا اختلاف سو ہے
ہمی نے اہلِ جہاں کا ستم سہا سو سہا
جسے جسے نہیں چاہا اُسے اُسے چاہا
جہاں جہاں بھی مرا دل نہیں رہا سو رہا
نہ دوسروں سے ندامت نہ خود سے شرمندہ
کہ جو کیا سو کیا اور جو کہا سو کہا
یہ دیکھ تجھ سے وفا کی کہ بے وفائی کی
چلو میں اور کہیں مبتلا رہا سو رہا
ترے نصیب اگر جا لگے کنارے سے
وگرنہ سیلِ زمانہ میں جو بہا سو بہا
شکست و فتح مرا مسئلہ نہیں ہے فراز
میں زندگی سے نبرد آزما رہا سو رہا

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں