اب پر ہيں، نہ قفس، نہ صياد، نہ چمن
جتنے تھے زندگي کے سہارے چلے گۓ
جن پہ تھا ناز مجھ کو يہ ميرے دوست ہيں
دامن جھٹک کے ميرا وہ پيارے چلے گۓ
ہر شب کو آنسوؤں کے جلاتے رہے چراغ
ہم تيري بزمِ ياد نکھارے چلے گۓ
لتھڑي ہوئي تھي خون ميں ہر زلفِ آرزو
جوشِ جنوں ميں ہم مگر سنوارے چلے گۓ
ہر زخم دل ميں تيرا سنوارے چلے گۓ
ہم زندگي کا قرض اتارے چلے گۓ
سو بار موت کو بھي بنايا ہے ہمسفر
ہم زندگي کے نقش ابھارے چلے گۓ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں