فقیرانہ آئے صدا کرچلے
میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے
جو تجھ بِن نہ جینے کو کہتے تھے ہم
سو اُس عہد کو اب وفا کر چلے
شفا اپنی تقدیر ہی میں نہ تھی
کہ مقدور تک تو دوا کر چلے
وہ کیا چیز ہے آہ جس کے لیے
ہر اک چیز سے دل اُٹھا کر چلے
کوئی ناامیدانہ کرتے نگاہ
سو تم ہم سے منہ بھی چُھپا کر چلے
بہت آرزو تھی گلی کی تری
سو یاں سے لہو میں نہا کر چلے
دکھائی دیے یوں کہ بے خود کیا
ہمیں آپ سے بھی جدا کر چلے
جبیں سجدہ کرتے ہی کرتے گئی
حقِ بندگی ہم ادا کر چلے
پرستش کی یاں تک کہ اے بُت تجھے
نظر میں سبھوں کی خدا کر چلے
نہ دیکھا غمِ دوستاں شکر ہے
ہمیں داغ اپنا دکھا کر چلے
گئی عمر در بندِ فکرِ غزل
سو یہ کام ایسا بڑا کر چلے
کہیں کیا جو پوچھے کوئی ہم سے میر
جہاں میں تم آئے تھے کیا کر چلے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں