بے دم ہوئے بیمار، دوا کیوںنہیںدیتے
تم اچھے مسیحا ہو شفا کیوںنہیںدیتے
درد شب ہجراں کی جزا کیوں نہیں دیتے
خوں دل وحشی کا صلا کیوں نہیں دیتے
مٹ جائے گی مخلوق خدا تو انصاف کرو گے
منصف ہوتو حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے
ہاں نکتہ ورو لاؤ لب و دل کی گواہی
ہاں نغمہ گرو ساز صدا کیوں نہںدیتے
پیمانِ جنوں ہاتھوں کو شرمائے گا کب تک
دل والو، گریباں کا پتا کیوں نہیں دیتے
بربادی دل جبر نہیںفیض کسی کا
وہ دشمن جاںہے تو بھلا کیوںنہیںدیتے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں