گرفتہ دل ہیں بہت آج تیرے دیوانے
خدا کرے کوئی تیرے سوا نہ پہچانے
مٹی مٹی سی امیدیں تھکے تھکے سے خیال
بجھے بجھے سے نگاہوں میں غم کے افسانے
ہزار شکر کہ ہم نے زباں سے کچھ نہ کہا
یہ اور بات کہ پوچھا نہ اہلِ دنیا نے
بقدرِ تشنہ لبی پرسشِ وفا نہ ہوئی
چھلک کے رہ گۓ تیری نظر کے پیمانے
خیال آ گیا مایوس رہ گزاروں کا
پلٹ کے آ گۓ منزل سے تیرے دیوانے
کہاں ہے تو کہ ترے انتطار میں اے دوست
تمام رات سلگتے ہیں دل کے ویرانے
امیدِ پرسشِ غم کس سے کیجیے ناصر
جو اپنے دل پہ گزرتی ہے کوئی کیا جانے
کمال است
جواب دیںحذف کریں