سرِ مقتل بھی صدا دی ہم نے
دل کی آواز سنا دی ہم نے
پہلے اک روزنِ در توڑا تھا
اب کے بنیاد ہلا دی ہم نے
پھر سرِ صبح وہ قصہ چھیٹرا
دن کی قندیل بجھا دی ہم نے
آتشِ غم کے شرارے چن کر
آگ زنداں میں لگا دی ہم نے
رہ گئے دستِ صبا کملا کر
پھول کو آگ پلا دی ہم نے
آتشِ گل ہو کہ ہو شعلۂِ ساز
جلنے والوں کو ہوا دی ہم نے
کتنے ادوار کی گم گشتہ نوا
سینۂِ نَے میں چھپا دی ہم نے
دمِ مہتاب فشاں سے ناصر
آج تو رات جگا دی ہم نے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں