اِن چراغوں کو تو جلنا ہے ہوا جیسی ہو
درد کی راتوں کو ڈھلنا ہے ہوا جیسی ہو
شوق کی آگ کو مدھم نہ کرو دیوانو
اپنی آواز کی لَو کم نہ کرو دیوانو
پھر سے سورج کو نکلنا ہے گھٹا جیسی ہو
اِن چراغوں کو تو جلنا ہے ہوا جیسی ہو
یہی مٹی تھی تمہیں جان سے بڑھ کر پیاری
آج اسی خاک سے ایک چشمۂ خون ہے جاری
راہ کتنی ہو کڑی رات ہو کتنی بھاری
ہم کو اس دشت میں چلنا ہے فنا جیسی ہو
اِن چراغوں کو تو جلنا ہے ہوا جیسی ہو
اپنے زخموں کو سجائے ہُوئے تاروں کی طرح
پرچمِ جاں کو لیے سینہ فگاروں کی طرح
اِس بیاباں سے گزرنا ہے بہاروں کی طرح
اِن چراغوں کو تو جلنا ہے ہوا جیسی ہو
درد کی رات کو ڈھلنا ہے فضا جیسی ہو
احمد فراز |
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں