تمہاری یاد کا اب تک چراغ جلتا ہے
عجیب شدتِ غم ہے کہ داغ جلتا ہے
میں پھول پھول بچاتا جھلس گیا آخر
عجیب رت ہے کہ سارا ہی باغ جلتا ہے
خدا کے واسطے روکو نہ مجھ کو رونے دو
وگرنہ شعلۂ دل سے دماغ جلتا ہے
میں تیز اڑان میں جاتا ہوں آسماں کی طرف
مگر یہ جسم کہ پیشِ سراغ جلتا ہے
شباب چیز ہے ایسی کہ اُف مری توبہ !
کہ جیسے رنگ سے مے کے ایاغ جلتا ہے
گرمی ہے سعد وہی برق آسمانوں سے
کہ جس سے شعلہ نکلتا ہے زاغ جلتا ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں