ہار کے بعد مسکراؤ کبھی
ترکِ اُلفت کے بعد اُمید وفا
ریت پر چل سکی ہے ناؤ کبھی!
اب جفا کی صراحتیں بیکار
بات سے بھرسکا ہے گھاؤ کبھی
شاخ سے موجِ گُل تھمی ہے کہیں !
ہاتھ سے رُک سکاہے بہاؤ کبھی
اندھے ذہنوں سے سوچنے والو
حرف میں روشنی ملاؤ کبھی
بارشیں کیا زمیں کے دُکھ بانٹیں
آنسوؤں سے بُجھا الاؤ کبھی
اپنے اسپین کی خبر رکھنا
کشتیاں تم اگر جلاؤ کبھی!
یہ زندگی بڑی عجیب سی، کبھی گلزار سی کبھی بیزار سی
جواب دیںحذف کریںکبھی خوشی ہمارے ساتھ ساتھ ،ہے کبھی غموں کی غبار سی
وقت انسان کو سکھا دیتا ہے عجب عجب چیزیں
جواب دیںحذف کریںپھر کیا نصیب ، کیا مقدر، کیا ہاتھ کی لکیریں