دنیا کا کچھ برا بھی تماشا نہیں رہا

دنیا کا کچھ برا بھی تماشا نہیں رہا
دل چاہتا تھا جس طرح ویسا نہیں رہا
تم سے ملے بھی ہم تو جدائی کے موڑ پر
کشتی ہوئی نصیب تو دریا نہیں رہا
کہتے تھے ایک پل نہ جیئیں گے ترے بغیر
ہم دونوں رہ گئے ہیں وہ وعدہ نہیں رہا
کاٹے ہیں اس طرح سے ترے بغیر روز و شب
میں سانس لے رہا تھا پر زندہ نہیں رہا
آنکھیں بھی دیکھ دیکھ کے خواب آ گئی ہیں تنگ
دل میں بھی اب وہ شوق، وہ لپکا نہیں رہا
کیسے ملائیں آنکھ کسی آئنے سے ہم
امجد ہمارے پاس تو چہرہ نہیں رہا

پسِ مرگ میرے مزار پر جو دیا کسی نے جلا دیا

پسِ مرگ میرے مزار پر جو دیا کسی نے جلا دیا
اُسے آہ دامنِ باد نے سرِ شام ہی بجھا دیا
مجھے دفن کرنا تو جس گھڑی، تو یہ اُس سے کہنا
وہ جو تیرا عاشقِ زار تھا، تہ خاک اُس کو دبا دیا
دمِ غسل سے مرے پیشتر، اُسے ہمدموں نے یہ سوچ کر
کہیں جاوے نہ اس کا دل دہل مری لاش پر سے ہٹا دیا
مری آنکھ جھپکی تھی ایک پل میرے دل نے چاہا کہ اٹھ کہ چل
دلِ بیقرار نے او میاں! وہیں چٹکی لے کے جگا دیا
میں نے دل دیا، میں نے جان دی! مگر آہ تو نے قدر نہ کی
کسی بات کو جو کبھی کہا، اسے چٹکیوں میں اڑا دیا