تم اگر یوں ہی نظریں ملاتے رہے


تم اگر یوں ہی نظریں ملاتے رہے

مے کشی میرے گھر سے کہاں جائے گی

اور یہ سلسلہ مستقل ہو تو پھر

بے خودی میرے گھر سے کہاں جائے گی

اک زمانے کے بعد آئی ہے شامِ غم

شامِ غم میرے گھر سے کہاں جائے گی

میری قسمت میں ہے جو تمہاری کمی

وہ کمی میرے گھر سے کہاں جائے گی

شمع کی اب مجھے کچھ ضرورت نہیں

نام کو بھی شبِ غم میں ظلمت نہیں

میرا ہر داغِ دل کم نہیں چاند سے

چاندنی میرے گھر سے کہاں جائے گی

تو نے جو غم دیے وہ خوشی سے لیے

تجھ کو دیکھا نہیں پھر بھی سجدے کیے

اتنا مضبوط ہے جب عقیدہ میرا

بندگی میرے در سے کہاں جائے گی

ظرف والا کوئی سامنے آئے تو

میں بھی دیکھوں ذرا اس کو اپنائے تو

میری ہم راز یہ، اس کا ہم راز میں

بے کسی میرے گھر سے کہاں جائے گی

جو کوئی بھی تیری راہ میں مر گیا

اپنی ہستی کووہ جاوداں کر گیا

میں شہیدِ وفا ہو گیا ہوں تو کیا

زندگی میرے گھر سے کہاں جائے گی

سحر کے ساتھ ہی سورج کا ہمرکاب ہوا

سحر کے ساتھ ہی سورج کا ہمرکاب ہوا
جو اپنے آپ سے نکلا وہ کامیاب ہوا
میں جاگتا رہا اک خواب دیکھ کر برسوں
پھر اس کے بعد مرا جاگنا بھی خواب ہوا
میں زندگی کے ہر اک مرحلے سے گزرا ہوں
کبھی میں خار بنا اور کبھی گلاب ہوا
سمندروں کا سفر بھی تو دشت ایسا تھا
جسے جزیرہ سمجھتے تھے اک سراب ہوا
وہ پوچھتا تھا کہ آخر ہمارا رشتہ کیا
سوال اس کا مرے واسطے جواب ہوا
ہماری آنکھ میں دونوں ہی ڈوب جاتے ہیں
وہ آفتاب ہوا یا کہ ماہتاب ہوا
نہ اپنا آپ ہے باقی نہ سعد یہ دنیا
یہ آگہی کا سفر تو مجھے عذاب ہوا