ہر رات تیری یاد کو سینے سے نکالا
جیسے کسی مورت کو دفینے سے نکالا
اک خواہشِ ناکام کو اس کو چۂ دل سے
بدلے تیرے تیور تو قرینے سے نکالا
پاؤں تری دہلیز پے رکھنے کے سزاوار
تونے جنہیں تکریم کے زینے سے نکالا
سکہ نہیں چلتا تری سرکار میں ورنہ
کیا کیا نہ ہنر ہم نے خزینے سے نکالا
ہم ایسے برے کیا تھے کے نفرت نہ محبت
رکھّا نہ کبھی پاس نہ سینے سے نکالا
ٹھوکر میں طلب کی رہے ہر عمر میں ہم جان
یوں جیت کے مفہوم کو جینے سے نکالا
بہت عمدہ
جواب دیںحذف کریںبہت خوب۔۔
جواب دیںحذف کریںواہ۔
جواب دیںحذف کریںآج معلوم ہوا کہ اوریا مقبول جان صاحب شاعر بھی ہیں۔
it was very pleasure for me to read your poetry
جواب دیںحذف کریں