تجھ سے بچھڑ کر آنکھوں کو نم کس لئے کریں

تجھ سے بچھڑ کر آنکھوں کو نم کس لئے کریں
تجھ کو نہیں ملال تو ہم کس لئے کریں
دنیا کی بے رُخی تونہیں ہے کوئی جواز
اس شدتِ خلوص کو کم کس لئے کریں
تا عمر قربتوں کو تو امکان ہی ناں تھا
آنکھیں فراقِ یار کا غم کس لئے کریں
اپنا جنوں داد و ستائش سے بے نیاز
پھر بے خودی کا حال رقم کس لئے کریں
جن کے لئے افق پہ چمکتے ہیں راستے
مٹی پہ ثبت نقشِ قدم کس لئے کریں
مانوس ہو چکے ہیں اندھیروں سے اپنے لوگ
اب احتجاجِ صبحِ کرم کس لئے کریں
ساجد کوئی نئی تو نہیں ہے یہ تیرگی
آخر ملا لِ شامِ الم کس لئے کریں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں