ہم کہ چہرے پہ نہ لائے کبھی ویرانی کو
یہ بھی کافی نہیںظالم کی پشیمانی کو
کارِ فرہاد سے یہ کم تو نہیںجو ہم نے
آنکھ سے دل کی طرف موڑ دیا پانی کو
شیشہء شوق پہ تُو سنگِ ملامت نہ گرا
عکسِ گل رنگ ہی کافی ہے گراں جانی کو
تُو رکے یا نہ رکے فیصلہ تجھ پر چھوڑا
دل نے در کھول دئیے ہیںتری آسانی کو
دامنِ چشم میں تارا ہے نہ جگنو کوئی
دیکھ اے دوست مری بے سر و سامانی کو
ہاں مجھے خبط ہے سودا ہے جنوں ہے شاید
دے لو جو نام بھی چاہو مری نادانی کو
جس میں مفہوم ہو کوئی نہ کوئی رنگِ غزل
سعد جی آگ لگے ایسی زباں دانی کو
ہم کہ چہرے پہ نہ لائے کبھی ویرانی کو
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں