نہیں زخم دل اب دکھانے کے قابل
یہ ناسور ہے بس چھپانے کے قابل
تیرے رو برو آوں کس منہ سے پیار
نہیں اب رہا منہ دکھانے کے قابل
وفور غم یاس نے ایسا گھیر ا
نہ چھوڑا کہیں آنے جانے کے قابل
شب ہجر کی تلخیاں کچھ نہ پوچھو
نہیں داستاں یہ سنانے کے قابل
یہ ٹھکرا کے دل پھر کہا مسکرا کر
نہ تھا دل یہ دل سے لگانے کے قابل
جو دیکھا مجھے پھیر لیں اپنی آنکھیں
نہ جانا مجھے منہ لگانے کے قابل
جو دیکھا مجھے پھیر لیں اپنی آنکھیں
نہ جانا مجھے منہ لگانے کے قابل
تیری بزم میںسینکڑوں آئے بیٹھے
ہمیں ایک تھے کیا اٹھانے کے قابل
یہ کافر نگاہیں یہ دلکش ادائیں
نہیں کچھ رہا اب بچانے کے قابل
دیار محبت کے سلطاں سے کہہ دو
یہ ویراں کدہ ہے بسانے کے قابل
کیا ذکر دل کا تو ہنس کر وہ بولے
نہیں ہے یہ د ل رحم کھانے کے قابل
نگاہ کرم یونہی رکھنا خدارا
نہ میں ہوں نہ دل آزمانے کے قابل
نشان کف پائے جاناں پہ یارب
ہمارا یہ سر ہو جھکانے کے قا بل
کبھی قبر مشتاق پر سے جو گزرے
کہا یہ نشاں ہے مٹانے کے قابل
نہیں زخم دل اب دکھانے کے قابل
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں