اے تازہ واردانِ بساطِ ہوائے دل
زنہار! اگر تمہیں ہوسِ نائے و نوش ہے
دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو
میری سنو، جو گوشِ نصیحت نیوش ہے
ساقی، بہ جلوہ، دشمنِ ایمان و آگہی
مُطرب، بہ نغمہ، رہزنِ تمکین و ہوش ہے
یا شب کو دیکھتے تھے کہ ہر گوشۂ بساط
دامانِ باغبان و کفِ گُل فروش ہے
لطفِ خرامِ ساقی و ذوقِ صدائے چنگ
یہ جنتِ نگاہ، وہ فردوسِ گوش ہے
یا صبح دم جو دیکھیے آ کر، تو بزم میں
نے وہ سُرور و سُور، نہ جوش و خروش ہے
داغِ فراقِ صحبتِ شب کی جلی ہوئی
اک شمع رہ گئی ہے، سو وہ بھی خموش ہے
آتے ہیں غیب سے یہ مضامین خیال میں
غالب! صریرِ خامہ، نواے سروش ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں