یاد آتا ہے روز و شب کوئی - ناصر کاظمی
تمھارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا
تمھارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا
نہ تھا رقیب تو آخر وہ نام کس کا تھا
وہ قتل کر کے مجھے ہر کسی سے پوچھتے ہیں
یہ کام کس نے کیا ہے، یہ کام کس کا تھا
وفا کریں گے، نباہیں گے، بات مانیں گے
تمھیں بھی یاد ہے کچھ، یہ کلام کس کا تھا
رہا نہ دل میں وہ بےدرد اور درد رہا
مقیم کون ہوا ہے، مقام کس کا تھا
نہ پوچھ گچھ تھی کسی کی وہاں نہ آؤ بھگت
تمھاری بزم میں کل اہتمام کس کا تھا
تمام بزم جسے سن کے رہ گئی مشتاق
کہو، وہ تذکرہء نا تمام کس کا تھا
گزر گیا وہ زمانہ، کہوں تو کس سے کہوں
خیال دل کو مرے صبح و شام کس کا تھا
ہر اک سے کہتے ہیں کیا داغ بے وفا نکلا
یہ پوچھے ان سے کوئی وہ غلام کس کا تھا
ہم کہ چہرے پہ نہ لائے کبھی ویرانی کو
ہم کہ چہرے پہ نہ لائے کبھی ویرانی کو
یہ بھی کافی نہیںظالم کی پشیمانی کو
کارِ فرہاد سے یہ کم تو نہیںجو ہم نے
آنکھ سے دل کی طرف موڑ دیا پانی کو
شیشہء شوق پہ تُو سنگِ ملامت نہ گرا
عکسِ گل رنگ ہی کافی ہے گراں جانی کو
تُو رکے یا نہ رکے فیصلہ تجھ پر چھوڑا
دل نے در کھول دئیے ہیںتری آسانی کو
دامنِ چشم میں تارا ہے نہ جگنو کوئی
دیکھ اے دوست مری بے سر و سامانی کو
ہاں مجھے خبط ہے سودا ہے جنوں ہے شاید
دے لو جو نام بھی چاہو مری نادانی کو
جس میں مفہوم ہو کوئی نہ کوئی رنگِ غزل
سعد جی آگ لگے ایسی زباں دانی کو
نہیں زخم دل اب دکھانے کے قابل
نہیں زخم دل اب دکھانے کے قابل
یہ ناسور ہے بس چھپانے کے قابل
تیرے رو برو آوں کس منہ سے پیار
نہیں اب رہا منہ دکھانے کے قابل
وفور غم یاس نے ایسا گھیر ا
نہ چھوڑا کہیں آنے جانے کے قابل
شب ہجر کی تلخیاں کچھ نہ پوچھو
نہیں داستاں یہ سنانے کے قابل
یہ ٹھکرا کے دل پھر کہا مسکرا کر
نہ تھا دل یہ دل سے لگانے کے قابل
جو دیکھا مجھے پھیر لیں اپنی آنکھیں
نہ جانا مجھے منہ لگانے کے قابل
جو دیکھا مجھے پھیر لیں اپنی آنکھیں
نہ جانا مجھے منہ لگانے کے قابل
تیری بزم میںسینکڑوں آئے بیٹھے
ہمیں ایک تھے کیا اٹھانے کے قابل
یہ کافر نگاہیں یہ دلکش ادائیں
نہیں کچھ رہا اب بچانے کے قابل
دیار محبت کے سلطاں سے کہہ دو
یہ ویراں کدہ ہے بسانے کے قابل
کیا ذکر دل کا تو ہنس کر وہ بولے
نہیں ہے یہ د ل رحم کھانے کے قابل
نگاہ کرم یونہی رکھنا خدارا
نہ میں ہوں نہ دل آزمانے کے قابل
نشان کف پائے جاناں پہ یارب
ہمارا یہ سر ہو جھکانے کے قا بل
کبھی قبر مشتاق پر سے جو گزرے
کہا یہ نشاں ہے مٹانے کے قابل
کچھ دیکھنا محال اسے دیکھ کر ہوا
کچھ دیکھنا محال اسے دیکھ کر ہوا
میں آئنہ مثال اسے دیکھ کر ہوا
سب دیکھتے رہے مجھے محفل میں رشک سے
میرا عجیب حال اسے دیکھ کر ہوا
پھر چاہتی ہے شب کہ کوئی وصل ہوطلوع
یہ سلسلہ بحال اسے دیکھ کر ہوا
شاید تمام عمر کی خوشیاں سمیٹ لے
وہ دکھ جو اب کے سال اسے دیکھ کر ہوا
جیسے کوئی اجاڑ سا منظر ہو سامنے
عاصم بہت ملال اسے دیکھ کر ہوا
دل نے تیرے بارے میں پوچھا تو بہت رویا
دل نے تیرے بارے میں پوچھا تو بہت رویا
وہ شخص جو پتھر تھا ٹوٹا تو بہت رویا
یہ دل کہ جدائی کے عنوان پہ برسوں سے
چپ تھا تو بہت چپ تھا رویا تو بہت رویا
آسان تو نہیں اپنی ہستی سے گزر جانا
اترا جو سمندر میں دریا تو بہت رویا
جو شخص نہ رویا تھا تپی ہوئی راہوں میں
دیوار کے سائے میں بیٹھا تو بہت رویا
اک حرف تسلی کا اک حرف محبت کا
خود اپنے لئے اس نے لکھا تو بہت رویا
پہلے بھی شکستوں پر کھائی تھی شکست اس نے
لیکن وہ تیرے ہاتھوں ہارا تو بہت رویا
جو عہد نبھانے کی دیتا تھا دعا اس نے
کل شام مجھے تنہا دیکھا تو بہت رویا
یہ تنہا رات یہ گہری فضائیں - احمد مشتاق
جو عشق میں نے کفر کی پہچان کر دیا - اقبال کوثر
جو عشق میں نے کفر کی پہچان کر دیا
کافر نے اس کو بھی مرا ایمان کر دیا
حیرت نہیں ہوئی جو کسی عکس پر ہمیں
اس نے تو آئنے کا بھی حیران کر دیا
کچھ علم ہے کہ تم نے تو گیسو بکھیر کر
شیرازۂ جہاں کو پریشان کر دیا
گو تم رہے خلاف سراغِ طبیعی کے
ہم نے تو یہ بھی وا درِ امکان کر دیا
اک قصرِ خواب ہم نے بنایا پھر آپ ہی
کیا جانے کس خیال سے ویران کر دیا
خوش ہو کہ کر دیا تجھے اے دل! سپردِ عشق
دیکھا تری نجات کا سامان کر دیا
آداب زندگی کے سکھا کر یہ کم ہے کیا
او جاہل آدمی تجھے انسان کر دیا
![]() |
اقبال کوثر |
پتھر تھا مگر برف کے گالوں کی طرح تھا
پتھر تھا مگر برف کے گالوں کی طرح تھا
اک شخص اندھیروں میں اجالوں کی طرح تھا
خوابوں کی طرح تھا نہ خیالوں کی طرح تھا
وہ علم ریاضی کے سوالوں کی طرح تھا
الجھا ہوا ایسا کہ کبھی حل نہ ہو سکا
سلجھا ہوا ایسا کہ مثالوں کی طرح تھا
وہ مل تو گیا تھا مگر اپنا ہی مقدر
شطرنج کی الجھی ہوئی چالوں کی طرح تھا
وہ روح میں خوشبو کی طرح ہو گیا تحلیل
جو دور بہت چاند کے ہالوں کی طرح تھا
اسے اپنے فردا کی فکر تھی وہ جو میرا واقف حال تھا
اسے اپنے فردا کی فکر تھی وہ جو میرا واقف حال تھا
وہ جو اسکی صبح عروج تھی وہی میرا وقت زوال تھا
میرا درد کیسے وہ جانتا میری بات کیسے وہ مانتا
وہ تو خود فنا کے سفر پہ تھا اسے روکنا بھی محال تھا
کہاںجاوَ گے مجھے چھوڑ کے میںیہ پوچھ پوچھ کر تھک گیا
وہ جواب بھی نہ دے سکا وہ تو خود سراپا سوال تھا
وہ جو اسکے سامنے آگیا وہی روشنی میںنہا گیا
عجب اسکا ہیبت حسن تھا عجب اسکا رنگ جمال تھا
دم واپسی یہ کیا ہوا نہ وہ روشنی نہ وہ تازگی
وہ ستارہ کیسے بجھ گیا جو اپنی مثال آپ تھا
وہ ملا تو صدیوںبعد بھی میرے لب پر کوئی گلہ نہ تھا
اسے میری چپ نے رلا دیا جسے گفتگو میںکمال تھا
مجھے سے ملکر وہ رو لیا مجھے فقط وہ اتنا کہہ سکا
جسے جانتا تھا میںزندگی وہ تو صرف وہم و خیال تھا
اب پر ہيں، نہ قفس، نہ صياد، نہ چمن
اب پر ہيں، نہ قفس، نہ صياد، نہ چمن
جتنے تھے زندگي کے سہارے چلے گۓ
جن پہ تھا ناز مجھ کو يہ ميرے دوست ہيں
دامن جھٹک کے ميرا وہ پيارے چلے گۓ
ہر شب کو آنسوؤں کے جلاتے رہے چراغ
ہم تيري بزمِ ياد نکھارے چلے گۓ
لتھڑي ہوئي تھي خون ميں ہر زلفِ آرزو
جوشِ جنوں ميں ہم مگر سنوارے چلے گۓ
ہر زخم دل ميں تيرا سنوارے چلے گۓ
ہم زندگي کا قرض اتارے چلے گۓ
سو بار موت کو بھي بنايا ہے ہمسفر
ہم زندگي کے نقش ابھارے چلے گۓ
کہاں ڈھونڈیں اسے کیسے بلائیں - احمد مشتاق
شہر نامہ - وہ عجیب صبحِ بہار تھی - احمد فراز
وہ عجیب صبحِ بہار تھی
کہ سحر سے نوحہ گری رہی
مری بستیاں تھیں دُھواں دُھواں
مرے گھر میں آگ بھری رہی
میرے راستے تھے لہو لہو
مرا قریہ قریہ فگار تھا
یہ کفِ ہوا پہ زمین تھی
وہ فللک کہ مشتِ غبار تھا
کئی آبشار سے جسم تھے
کہ جو قطرہ قطرہ پگھل گئے
کئی خوش جمال طلسم تھے
جنھیں گرد باد نگل گئے
کوئی خواب نوک سناں پہ تھا
کوئی آرزو تہِ سنگ تھی
کوئی پُھول آبلہ آبلہ
کوئی شاخ مرقدِ رنگ تھی
کئی لاپتہ میری لَعبتیں
جو کسی طرف کی نہ ہوسکیں
جو نہ آنے والوں کے ساتھ تھیں
جو نہ جانے والوں کو روسکیں
کہیں تار ساز سے کٹ گئی
کسی مطربہ کی رگ گُلُو
مئے آتشیں میں وہ زہر تھا
کہ تڑخ گئے قدح و سَبُو
کوئی نَے نواز تھا دم بخود
کہ نفس سے حدت جاں گئی
کوئی سر بہ زانو تھا باربُد
کہ صدائے دوست کہاں گئی
کہیں نغمگی میں وہ بَین تھے
کہ سماعتوں نے سُنے نہیں
کہیں گونجتے تھے وہ مرثیے
کہ انیس نے بھی کہے نہیں
یہ جو سنگ ریزوں کے ڈھیر ہیں
یہاں موتیوں کی دکان تھی
یہ جو سائبان دھوئیں کے ہیں
یہاں بادلوں کی اڑان تھی
جہاں روشنی ہے کھنڈر کھنڈر
یہاں قُمقُموں سے جوان تھے
جہاں چیونٹیاں ہوئیں خیمہ زن
یہاں جگنوؤں کے مکان تھے
کہیں آبگینہ خیال کا
کہ جو کرب ضبط سے چُور تھا
کہیں آئینہ کسی یاد کا
کہ جو عکسِ یار سے دور تھا
مرے بسملوں کی قناعتیں
جو بڑھائیں ظلم کے حوصلے
مرے آہوؤں کا چَکیدہ خوں
جو شکاریوں کو سراغ دے
مری عدل گاہوں کی مصلحت
مرے قاتلوں کی وکیل ہے
مرے خانقاہوں کی منزلت
مری بزدلی کی دلیل ہے
مرے اہل حرف و سخن سرا
جو گداگروں میں بدل گئے
مرے ہم صفیر تھے حیلہ جُو
کسی اور سمت نکل گئے
کئی فاختاؤں کی چال میں
مجھے کرگسوں کا چلن لگا
کئی چاند بھی تھے سیاہ رُو
کئی سورجوں کو گہن لگا
کوئی تاجرِ حسب و نسب
کوئی دیں فروشِ قدیم ہے
یہاں کفش بر بھی امام ہیں
یہاں نعت خواں بھی کلیم ہے
کوئی فکر مند کُلاہ کا
کوئی دعوٰی دار قبا کا ہے
وہی اہل دل بھی ہیں زیبِ تن
جو لباس اہلِ رَیا کا ہے
مرے پاسباں، مرے نقب زن
مرا مُلک مِلکِ یتیم ہے
میرا دیس میرِ سپاہ کا
میرا شہر مال غنیم ہے
جو روش ہے صاحبِ تخت کی
سو مصاحبوں کا طریق ہے
یہاں کوتوال بھی دُزد شب
یہاں شیخ دیں بھی فریق ہے
یہاں سب کے نِرخ جدا جدا
اسے مول لو اسے تول دو
جو طلب کرے کوئی خوں بہا
تو دہن خزانے کے کھول دو
وہ جو سرکشی کا ہو مرتکب
اسے قُمچیوں سے زَبُوں کرو
جہاں خلقِ شہر ہو مشتعل
اسے گولیوں سے نگوں کرو
مگر ایسے ایسے غنی بھی تھے
اسی قحط زارِ دمشق میں
جنھیں کوئے یار عزیز تھا
جو کھڑے تھے مقتلِ عشق میں
کوئی بانکپن میں تھا کوہکن
تو جنوں میں قیس سا تھا کوئی
جو صراحیاں لئے جسم کی
مئے ناب خوں سے بھری ہوئی
تھے صدا بلب کہ پیو پیو
یہ سبیل اہل وفا کی ہے
یہ نشید نوشِ بدن کرو
یہ کشید تاکِ وفا کی ہے
کوئی تشنہ لب ہی نہ تھا یہاں
جو پکارتا کہ اِدھر اِدھر
سبھی مفت بر تھے تماشہ بیں
کوئی بزم میں کوئی بام پر
سبھی بے حسی کے خمار میں
سبھی اپنے حال میں مست تھے
سبھی راہروانِ رہِ عدم
مگر اپنے زعم میں ہست تھے
سو لہو کے جام انڈیل کر
مرے جانفروش چلے گئے
وہ سکوُت تھا سرِ مے کدہ
کہ وہ خم بدوش چلے گئے
کوئی محبسوں میں رَسَن بہ پا
کوئی مقتلوں میں دریدہ تن
نہ کسی کے ہاتھ میں شاخ نَے
نہ کسی کے لب پ گُلِ سخن
اسی عرصہء شب تار میں
یونہی ایک عمر گزر گئی
کبھی روز وصل بھی دیکھتے
یہ جو آرزو تھی وہ مرگئی
یہاں روز حشر بپا ہوئے
پہ کوئی بھی روز جزا نہیں
یہاں زندگی بھی عذاب ہے
یہاں موت بھی شفا نہیں
جو حرفِ حق تھا وہی جا بجا کہا سو کہا - احمد فراز
نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی
نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی
مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی
تمھارے پیامی نے سب راز کھولا
خطا اس میں بندے کی سرکار کیا تھی
بھری بزم میں اپنے عاشق کو تاڑا
تری آنکھ مستی میں ہشیار کیا تھی!
تامّل تو تھا ان کو آنے میں قاصد
مگر یہ بتا طرز انکار کیا تھی
کھنچے خود بخود جانبِ طور موسٰی
کشش تیری اے شوق دیدار کیا تھی!
کہیں ذکر رہتا ہے اقبال تیرا
فسوں تھا کوئی ، تیری گفتار کیا تھی
اس بھرے شہر میں میری طرح رسوا ہوتا
اس بھرے شہر میں میری طرح رسوا ہوتا
تجھ پہ حادثۂ شوق جو گزرا ہوتا
تو نے ہر چند زباں پر تو بٹھائے پہرے
بات جب تھی کہ مری سوچ کو بدلا ہوتا
رکھ لیا غم بھی ترا بار امانت کی طرح
کون اس شہر کے بازار میں رسوا ہوتا
جب بھی برسا ہے ترے شہر کی جانب برسا
کوئی بادل تو سر دشت بھی برسا ہوتا
آئینہ خانے میں اک عمر رہے محو خیال
اپنے اندر سے نکل کر کبھی دیکھا ہوتا
میری کشتی کو بھلا موج ڈبو سکتی تھی
میں اگر خود نہ شریک کف دریا ہوتا
تجھ پہ کھل جاتی مری روح کی تنہائی بھی
میری آنکھوں میں کبھی جھانک کے دیکھا ہوتا
کیا کہوں اپنے چمن سے میں جدا کیونکر ہوا
کیا کہوں اپنے چمن سے میں جدا کیونکر ہوا
اور اسیرِ حلقۂ دام ہوا کیونکر ہوا
جائے حیرت ہے برا سارے زمانے کا ہوں میں
مجھ کو یہ خلعت شرافت کا عطا کیونکر ہوا
کچھ دکھانے دیکھنے کا تھا تقاضا طور پر
کیا خبر ہے تجھ کو اے دل فیصلا کیونکر ہوا
ہے طلب بے مدّعا ہونے کی بھی اک مدّعا
مرغِ دل دامِ تمنّا سے رِہا کیونکر ہوا
دیکھنے والے یہاں بھی دیکھ لیتے ہیں تجھے
پھر یہ وعدہ حشر کا صبر آزما کیونکر ہوا
حسنِ کامل ہی نہ ہو اس بے حجابی کا سبب
وہ جو تھا پردوں میں پنہاں، خود نما کیونکر ہوا
موت کا نسخہ ابھی باقی ہے اے دردِ فراق!
چارہ گر دیوانہ ہے، میں لا دوا کیونکر ہوا
تو نے دیکھا ہے کبھی اے دیدۂ عبرت کہ گل
ہو کے پیدا خاک سے رنگیں قبا کیونکر ہوا
پرسشِ اعمال سے مقصد تھا رسوائی مری
ورنہ ظاہر تھا سبھی کچھ، کیا ہوا، کیونکر ہوا
میرے مٹنے کا تماشا دیکھنے کی چیز تھی
کیا بتاؤں ان کا میرا سامنا کیونکر ہوا
دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا - ناصر کاظمی
برسوں کے بعد ديکھا اک شخص دلرُبا سا - احمد فراز
چراغِ طور جلاؤ! بڑا اندھیرا ہے
چراغِ طور جلاؤ! بڑا اندھیرا ہے
ذرا نقاب اٹھاؤ! بڑا اندھیرا ہے
ابھی تو صبح کے ماتھے کا رنگ کالا ہے
ابھی فریب نہ کھاؤ! بڑا اندھیرا ہے
وہ جن کے ہوتے ہیں خورشید آستینوں میں
انہیں کہیں سے بلاؤ! بڑا اندھیرا ہے
مجھے تمہاری نگاہوں پہ اعتماد نہیں
مرے قریب نہ آؤ! بڑا اندھیرا ہے
فرازِ عرش سے ٹوٹا ہوا کوئی تارا
کہیں سے ڈھونڈ کے لاؤ بڑا اندھیرا ہے
بصیرتوں پہ اجالوں کا خوف طاری
مجھے یقین دلاؤ! بڑا اندھیرا ہے
جسے زبانِ خرد میں شراب کہتے ہیں
وہ روشنی سی پلاؤ! بڑا اندھیرا ہے
بنامِ زہرہ جبینانِ خطۂ فردوس
کسی کرن کو جگاؤ! بڑا اندھیرا ہے
تجھ بِن خراب و خستہ زبوں خوار ہو گئے
تجھ بِن خراب و خستہ زبوں خوار ہو گئے
کیا آرزو تھی ہم کو کہ بیمار ہو گئے
ہم نے بھی سیر کی تھی چمن کی پر اے نسیم!
اٹھتے ہی آشیاں سے گرفتار ہو گئے
وہ تو گلے لگا ہوا سوتا تھا خواب میں
بخت اپنے سو گئے کہ جو بیدار ہو گئے
اے تغیر زمانہ یہ عجب دل لگی ہے
اے تغیر زمانہ یہ عجب دل لگی ہے
نہ وقارِ دوستی ہے نہ مجالِ دشمنی ہے
یہی ظلمتیں چھنیں جو ترے سرخ آنچلوں میں
انہی ظلمتوں سے شاید مرے گھر میں روشنی ہے
مرے ساتھ تم بھی چلنا مرے ساتھ تم بھی آنا
ذرا غم کے راستوں میں بڑی تیز تیرگی ہے
یہ مشاہدہ نہیں ہے مرے درد کی صدا ہے
میرے داغِ دل لیے ہیں تری بزم جب سجی ہے
غمِ زندگی کہاں ہے ابھی وحشتوں سے فرصت
ترے ناز اٹھا ہی لیں گے ابھی زندگی پڑی ہے
ترے خشک گیسوؤں میں مری آرزو ہے پنہاں
ترے شوخ بازوؤں میں مری داستاں رچی ہے
جسے اپنا یار کہنا اسے چھوڑنا بھنور میں!
یہ حدیثِ دلبراں ہے یہ کمالِ دلبری ہے
وہ گزر گیا ہے ساغر کوئی قافلہ چمن سے
کہیں آگ جل رہی ہے کہیں آگ بجھ گئی ہے
زخمِ دل پربہار دیکھا ہے
زخمِ دل پربہار دیکھا ہے
کیا عجب لالہ زار دیکھا ہے
جن کے دامن میںکچھ نہیں ہوتا
ان کے سینوں میں پیار دیکھا ہے
خاک اڑتی ہے تیری گلیوں میں
زندگی کا وقار دیکھا ہے
تشنگی ہے صدف کے ہونٹوں پر
گل کا سینہ فگار دیکھا ہے
ساقیا! اہتمامِ بادہ کر
وقت کو سوگوار دیکھا ہے
جذبۂ غم کی خیر ہو ساغر
حسرتوں پر نکھار دیکھا ہے
کب یاروں کو تسلیم نہیں ، کب کوئی عدو انکاری ہے - احمد فراز
اِن چراغوں کو تو جلنا ہے ہوا جیسی ہو - احمد فراز
![]() |
احمد فراز |
ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وا کرے کوئی
منصور کو ہوا لب گویا پیام موت
اب کیا کسی کے عشق کا دعویٰ کرے کوئی
ہو دید کا جو شوق تو آنکھوں کو بند کر
ہے دیکھنا یہی کہ نہ دیکھا کرے کوئی
میں انتہائے عشق ہوں، تو انتہائے حسن
دیکھے مجھے کہ تجھ کو تماشا کرے کوئی
عذر آفرین جرم محبت ہے حسن دوست
محشر میں عذرِ تازہ نہ پیدا کرے کوئی
چھپتی نہیں ہے یہ نگہ شوق ہم نشیں!
پھر اور کس طرح انھیں دیکھا کر ے کوئی
اڑ بیٹھے کیا سمجھ کے بھلا طور پر کلیم
طاقت ہو دید کی تو تقاضا کرے کوئی
نظارے کو یہ جنبش مژگاں بھی بار ہے
نرگس کی آنکھ سے تجھے دیکھا کرے کوئی
کھل جائیں ، کیا مزے ہیں تمنائے شوق میں
دو چار دن جو میری تمنا کرے کوئی
آرزوئے وصل جاناں میں سحر ہونے لگی
آرزوئے وصل جاناں میں سحر ہونے لگی
زندگی مانند شمع مختصر ہونے لگی
راز الفت کھل نہ جائے بات رہ جائے مری
بزم جاناں میں الہیٰ چشم تر ہونے لگی
اب شکیب دل کہاں حسرت ہی حسرت رہ گی
زندگی اک خواب کی صورت بسر ہونے لگی
یہ طلسم حسن ہے یا کہ مآل عشق ہے
اپنی ناکامی ہی اپنی راہ بر ہونے لگی
سن رہا ہوں آرہے ہیں وہ سر بالیں آج
میری آہ نارسا با اثرہونے لگی
ان سے وابستہ امیدیں جو بھی تھی وہ مٹ گئیں
اب طبیعت آپ اپنی چارہ گر ہونے لگی
وہ تبسم تھا کہ برق حسن کا اعجاز تھا
کائنات جان و دل زیر و زبر ہونے لگی
دل کی ڈھڑکن بڑھ گئی آنکھوں میں آنسو آگئے
غالباً میری طرف ان کی نظر ہونے گی
جب چلا مشتاق اپنا کارواں سوئے عدم
یاس ہم آغوش ہو کر ہم سفر ہونے لگی
اس طرح ہوں شہر کے لوگوں میں اب بکھرا ہوا
اس طرح ہوں شہر کے لوگوں میں اب بکھرا ہوا
اجنبی لوگوں پہ اپنے آپ کا دھوکا ہوا
آنکھ کے نم سے مجھے کچھ غم کا اندازہ ہوا
میں تو سمجھا تھا کہ یہ بادل بھی ہے برسا ہوا
وہ ترے ملنے کی ساعت خون میں رچ بس گئ
آج تک وہ پھول ہے گلدان میں رکھا ہوا
لوگ تنہائی سے ڈر کر جنگلوں میں آگئے
شہر کی گلیوں میں اب کہ ایسا سناٹا ہوا
وہ ترے آنے کا وعدہ وہ ترے ملنے کا شوق
ایک مدت سے ہے دل کے طاق پر رکھا ہوا
وقت نے دھندلا دئیے کیسے شناسائی کے رنگ
جس طرح یہ خواب ہو پہلے کبھی دیکھا ہوا
ترکِ تعلقات پہ رویا نہ تو نہ میں
ترکِ تعلقات پہ رویا نہ تو نہ میں
لیکن یہ کیا کہ چین سے سویا نہ تو نہ میں
حالات کے طلسم نے پتھرا دیا مگر
بیتے سموں کی یاد میں کھویا نہ تو نہ میں
ہر چند اختلاف کے پہلو ہزار تھے
وا کر سکا مگر لبِ گویا نہ تو نہ میں
نوحے فصیلِ ضبط سے اونچے نہ ہو سکے
کھل کر دیارِ سنگ میں رویا نہ تو نہ میں
جب بھی نظر اٹھی تو فلک کی طرف اٹھی
برگشتہ آسمان سے گویا نہ تو نہ میں
منسوب تھے جو لوگ میری زندگی کے ساتھ - محسن نقوی
منسوب تھے جو لوگ میری زندگی کے ساتھ
اکثر وہی ملے ہیں بڑی بے رُخی کے ساتھ
یوں تو مَیں ہنس پڑا ہُوں تمہارے لیے مگر
کتنے ستارے ٹوٹ پڑے اِک ہنسی کے ساتھ
فرصت مِلے تو اپنا گریباں بھی دیکھ لے
اے دوست یوں نہ کھیل میری بے بسی کے ساتھ
مجبوریوں کی بات چلی ہے تو مئے کہاں
ہم نے پِیا ہے زہر بھی اکثر خوشی کے ساتھ
چہرے بدل بدل کے مجھے مل رہے ہیں لوگ
اتنا بُرا سلوک میری سادگی کے ساتھ
اِک سجدۂ خلوص کی قیمت فضائے خلد
یاربّ نہ کر مذاق میری بندگی کے ساتھ
محسن کرم بھی ہو جس میں خلوص بھی
مجھ کو غضب کا پیار ہے اُس دشمنی کے ساتھ
![]() |
محسن نقوی |
سوزِ غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا
سوزِ غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا
جا تجھے کشمکشِ دہر سے آزاد کیا
وہ کریں بھی تو کن الفاظ میں تیرا شکوہ
جن کو تیری نگہِ لطف نے برباد کیا
دل کی چوٹوں نے کبھی چین سے رہنے نہ دیا
جب چلی سرد ہوا، میں نے تجھے یاد کیا
اے میں سو جان سے اس طرزِ تکلّم کے نثار
پھر تو فرمائیے، کیا آپ نے ارشاد کیا
اس کا رونا نہیں کیوں تم نے کیا دل برباد
اس کا غم ہے کہ بہت دیر میں برباد کیا
اتنا مانوس ہوں فطرت سے، کلی جب چٹکی
جھک کے میں نے یہ کہا، مجھ سے کچھ ارشاد کیا
مجھ کو تو ہوش نہیں تم کو خبر ہو شاید
لوگ کہتے ہیں کہ تم نے مجھے برباد کیا
جب ہجر کی آگ جلاتے ہیں کچھ لوگ بہت یاد آتے ہیں
جب ہجر کی آگ جلاتے ہیں کچھ لوگ بہت یاد آتے ہیں
آنکھوں میں راکھ سجاتے ہیں کچھ لوگ بہت یاد آتے ہیں
موسم کے رنگ بدلتے ہیں لہرا کر جھونکے آتے ہیں
شاخوں سے بور اڑاتے ہیں کچھ لوگ بہت یاد آتے ہیں
یادوں کی گرم ہواؤں سے آنکھوں کی کلیاں جلتی ہیں
جب آنسو درد بہاتے ہیں کچھ لوگ بہت یاد آتے ہیں
بے درد ہوائیں سہ سہ کر سورج کے ڈھلتے سائیوں میں
جب پنچھی لوٹ کے آتے ہیں کچھ لوگ بہت یاد آتے ہیں
جب لوگ جہاں کے قصوں میں دم بھر کا موقعہ ملتے ہی
لفظوں کے تیر چلاتے ہیں کچھ لوگ بہت یاد آتے ہیں
یہ عشق محبت کچھ بھی نہیں فرصت کی کارستانی ہے
جب لوگ مجھے سمجھاتے ہیں کچھ لوگ بہت یاد آتے ہیں
جب کالے بادل گھر آئیں اور بارش زور سے ہوتی ہو
دروازے شور مچاتے ہیں کچھ لوگ بہت یاد آتے ہیں
جب آنگن میں خاموشی اپنے ہونٹ پہ انگلی رکھے ہو
سناٹے جب در آتے ہیں کچھ لوگ بہت یاد آتے ہیں
جب سرد ہوا کا بستر ہو اور یاد سے اس کی لپٹے ہوں
تب نغمے سے لہراتے ہیں کچھ لوگ بہت یاد آتے ہیں
جب اوس کے قطرے پھولوں پر کچھ موتی سے بن جاتے ہیں
تب ہم بھی اشک بہاتے ہیں کچھ لوگ بہت یاد آتے ہیں
ہم نے ہی لَوٹنے کا ارادہ نہیں کیا
ہم نے ہی لَوٹنے کا ارادہ نہیں کیا
اس نے بھی بھول جانے کا وعدہ نہیں کیا
دکھ اوڑھتے نہیں کبھی جشنِ طرب میں ہم
ملبوس دل کو تن کا لبادہ نہیں کیا
جو غم ملا ہے بوجھ اٹھایا ہے اس کا خود
سر زیرِ بارِ ساغر و بادہ نہیں کیا
کارِ جہاں ہمیں بھی بہت تھے سفر کی شام
اس نے بھی التفات زیادہ نہیں کیا
آمد پہ تیری عطر و چراغ و سَبو نہ ہوں
اتنا بھی بود و باش کو سادہ نہیں کیا
وہ کیوں نہ روٹھتا ، میں نے بھی تو خطا کی تھی
وہ کیوں نہ روٹھتا ، میں نے بھی تو خطا کی تھی
بہت خیال رکھا تھا بہت وفا کی تھی
سنا ہے ان دنوں ہم رنگ ہیں بہار اور آگ
یہ آگ پھول ہو میں نے بہت دعا کی تھی
نہیں تھا قرب میں بھی کچھ مگر یہ دل ، مرا دل
مجھے نہ چھوڑ ، بہت التجا کی تھی
سفر میں کشمکش مرگ و زیست کے دوران
نجانے کس نے مجھے زندگی عطا کی تھی
سمجھ سکا نہ کوئی بھی مری ضرورت کو
یہ اور بات کہ اک خلق اشتراکی تھی
یہ ابتدا تھی کہ میں نے اسے پکارا تھا
وہ آ گیا تھا ظفر اس نے انتہا کی تھی
مجھے تم یاد آتے ہو
مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔
کسی سنسان سپنے میں چھپی خوائش کی حدت میں
کسی مصروفیت کے موڑ پر
تنہائی کے صحراؤں میں یا پھر
کسی انجان بیماری کی شدت میں
“مجھے تم یاد آتے ہو“
کسی بچھڑے ہوئے کی چشم نم کے نظارے پر
کسی بیتے ہوئے دن کی تھکن کی اوٹ سے
یا پھر تمہارے ذکر میں گزری ہوئی شب کے اشارے پر
کسی بستی کی بارونق سڑک پر
اور کسی دریاَ ، کسی ویران جنگل کے کنارے پر
مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔ ۔
مری چپ کے کنویں میں
آرزوؤں کے بدن جب تیرتے ہیں
اور کنارے سے کوئی بولے
تو لگتا ہے اجل آواز دیتی ہے
مری بے چینیوں میں جب تمہاری تندخور رنجش کھٹکتی ہے
تمہاری بے دردی سلگتی ہے
یا پھر جب مری آنکھوں کے صحرا میں
تمہاری یاد کی تصویر جلتی ہے ، جدائی آنکھ ملتی ہے
مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔ ۔
مجھے تم یاد آتے ہو۔ ۔ ۔ ۔
مقدر کے ستا روں پر
زمانوں کے اشاروں پر
ادا سی کے کناروں پر
کبھی ویران شہروں میں
کبھی سنسان رستوں پر
کبھی حیران آنکھوں میں
کبھی بے جان لمحوں پر
مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔ ۔ ۔
سہانی شام ہو کوئی ۔ ۔۔ ۔
کہیں بدنام ہو کوئی بھلے گلفام کوئی ۔ ۔ ۔۔
کسی کے نام ہو کوئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔ ۔ ۔
کہیں بارش برس جائے ۔ ۔ ۔۔
کہیں صحرا ترس جائے ۔ ۔۔ ۔
کہیں کالی گھٹا اتر جائے ۔ ۔۔ ۔۔
کہیں باد صبا ٹھہرے ۔۔ ۔ ۔۔۔ ۔۔
مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔ ۔
مجھے تم یاد آتے ہو ۔
یہ اور بات تیری گلی میں نہ آئیں ہم
یہ اور بات تیری گلی میں نہ آئیں ہم
لیکن یہ کیا کہ شہر ترا چھوڑ جائیں ہم
مدّت ہوئی ہے کوئے بتاں کی طرف گئے
آوارگی سے دل کو کہاں تک بچائیں ہم
شاید بقیدِ زیست یہ ساعت نہ آسکے
تم داستانِ شوق سنو اور سنائیں ہم
بے نور ہوچکی ہے بہت شہر کی فضا
تاریک راستوں میں کہیں کھو نہ جائیں ہم
اُس کے بغیر آج بہت جی اداس ہے
جالب چلو کہیں سے اسے ڈھونڈ لائیں ہم
نہ ترا خدا کوئی اور ہے نہ مرا خدا کوئی اور ہے
نہ ترا خدا کوئی اور ہے نہ مرا خدا کوئی اور ہے
یہ جو قسمتیں ہیں جدا جدا یہ معاملہ کوئی اور ہے
ترا جبر ہے مرا صبر ہے تری موت ہے مری زندگی
مرے درجہ وار شہید ہیں ، مری کربلا کوئی اور ہے
کئی لوگ تھے جو بچھڑ گئے کئی نقش تھے جو بگڑ گئے
کئی شہر تھے جو اجڑ گئے ابھی ظلم کیا کوئی اور ہے
نہ تھا جس کو خانہ خاک یاد ہوا نذر آتش و ابر و باد
کہ ہر ایک دن دن سے الگ ہے دن جو حساب کا کوئی اور ہے
ہوئے خاک دھول تو پھر کھلا یہی بامراد ہے قافلہ
وہ کہاں گئے جنہیں زعم تھا کہ راہ وفا کوئی اور ہے
یہ ہے ربط اصل سے اصل کانہیں ختم سلسلہ وصل کا
جو گرا ہے شاخ سے گل کہیں تو وہیں کھلا کوئی اور ہے
وہ عجیب منظر خواب تھا کہ وجود تھا نہ سراب تھا
کبھی یوں لگا نہیں کوئی اور ،کبھی یوں لگا کوئی اور ہے
کوئی ہے تو سامنے لائیے ، کوئی ہے تو شکل دکھائیے
ظفر آپ خود ہی بتائیے ، مرے یار سا کوئی اور ہے
اے عشق کہیں لے چل - اختر شیرانی
دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی - ناصر کاظمی
دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی
کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی
شور برپا ہے خانہ دل میں
کوئی دیوار سی گری ہے ابھی
بھری دنیا میں جی نہیں لگتا
جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی
تو شریک سخن نہیں ہے تو کیا
ہم سخن تیری خامشی ہے ابھی
یاد کے بے نشاں جزیروں سے
تیری آواز آرہی ہے ابھی
شہر کی بے چراغ گلیوں میں
زندگی تجھ کو ڈھونڈتی ہے ابھی
سو گئے لوگ اس حویلی کے
ایک کھڑکی مگر کھلی ہے ابھی
تم تو یارو ابھی سے اٹھ بیٹھے
شہر میں رات جاگتی ہے ابھی
وقت اچھا بھی آئے گا ناصر
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی
![]() |
ناصر کاظمی |
اپنی رسوائی ، ترے نام کا چرچا دیکھوں
اپنی رسوائی ، ترے نام کا چرچا دیکھوں
اک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں
نیند آجائے تو کیا محفلیں برپا دیکھوں
آنکھ کھل جائے تو تنہائی کا صحرا دیکھوں
شام بھی ہو گئی ، دھندلا گئیں آنکھیں بھی مری
بھولنے والے میں کب تک ترا رستا دیکھوں
ایک اک کر کے مجھے چھوڑ گئیں سب سکھیاں
آج میں خود کو تری یاد میں تنہا دیکھوں
کاش صندل سے مری مانگ اجالے آ کر
اتنے غیروں میں وہی ، ہاتھ جو اپنا دیکھوں
تو مرا کچھ نہیں لگتا ہے مگر جانِ حیات!
جانے کیوں تیرے لئے دل کو دھڑکتا دیکھوں
بند کر کے مری آنکھیں وہ شرارت سے ہنسے
بوجھے جانے کا میں ہر روز تماشا دیکھوں
سب ضدیں اس کی میں پوری کروں ، ہر بات سنوں
ایک بچے کی طرح سے اسے ہنستا دیکھوں
مجھ پہ چھا جائے وہ برسات کی خوشبو کی طرح
انگ انگ اپنا اسی رت میں مہکتا دیکھوں
پھول کی طرح میرے جسم کا ہر لب کھل جائے
پنکھڑی پنکھڑی ان ہونٹوں کا سایہ دیکھوں
میں نے جس لمحے کو پوجا ہے ، اسے بس اک بار
خواب بن کر تری آنکھوں میں اترتا دیکھوں
تو مری طرح سے یکتا ہے، مگر مرے حبیب!
جی میں آتا ہے کوئی اور بھی تجھ سا دیکھوں
ٹوٹ جائیں کہ پگھل جائیں مرے کچے گھڑے
تجھ کو میں دیکھوں کہ آگ کا دریا دیکھوں
میں مر مٹا تو وہ سمجھا یہ انتہا تھی مری - احمد فراز
نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں اور بال بناؤں کس کے لیے - ناصر کاظمی
اے جذبۂ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آ جائے - بہزاد لکھنوی
اے جذبۂ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آ جائے
منزل کے لیے دو گام چلوں اور سامنے منزل آ جائے
اے دل کی خلش چل یونہی سہی چلتا تو ہُوں انکی محفل میں
اُس وقت مجھے چونکا دینا جب رنگ پہ محفل آ جائے
اے رہبرِ کامل چلنے کا تیار ہوں میں پر یاد رہے
اُس وقت مجھے بھٹکا دینا جب سامنے منزل آ جائے
ہاں یاد مُجھے تم کر لینا آواز مجھے تم دے لینا
اس راہِ محبت میں کوئی درپیش جو مُشکل آ جائے
اب کیوں ڈھونڈوں گا چشمِ کرم، ہونے دے سِتم بالائے ستم
میں چاہوں تو اے جذبۂ غم، مشکل پسِ مشکل آ جائے
![]() |
بہزاد لکھنوی |
آئے تھے ان کے ساتھ نظارے چلے گئے
آئے تھے ان کے ساتھ نظارے چلے گئے
وہ شب وہ چاندنی وہ ستارے چلے گئے
شاید تمہارے ساتھ بھی واپس نہ آ سکیں
وہ ولولے جو ساتھ تمہارے چلے گئے
ہر آستاں اگرچہ ترا آستاں نہ تھا
ہر آستاں پہ تجھ کو پکارے چلے گئے
شام وصال خانہ غربت سے روٹھ کر
تم کیا گئے نصیب ہمارے چلے گئے
دیکھا تو پھر وہیں تھے چلے تھے جہاں سے ہم
کشتی کے ساتھ ساتھ کنارے چلے گئے
جاتے ہی ان کے سیف شب غم نے آ لیا
رخصت ہوا وہ چاند ستارے چلے گئے
ہرشخص پریشان سا حیراں سا لگے ہے - ادا جعفری
خیالِ ترکِ تمنّا نہ کر سکے تو بھی - ناصر کاظمی
یہ معجزہ بھی محبت کبھی دکھائے مجھے
یہ معجزہ بھی محبت کبھی دکھائے مجھے
کہ سنگ تجھ پہ گرے اور زخم آئے مجھے
میں اپنے پاؤں تلے روندتا ہوں سائے کو
بدن مرا سہی، دوپہر نہ بھائے مجھے
میں گھر سے تیری تمنا پہن کے جب نکلوں
برہنہ شہر میں کوئی نظر نہ آئے مجھے
وہی تو سب سے زیادہ ہے نکتہ چیں میرا
جو مسکرا کے ہمیشہ گلے لگائے مجھے
وہ میرا دوست ہے سارے جہاںکو ہے معلوم
دغا کرے وہ کسی سے تو شرم آئے مجھے
میں اپنی ذات میں نیلام ہورہا ہوں قتیل
غمِ حیات سے کہہ دو خرید لائے مجھے
رنگ برسات نے بھرے کچھ تو - ناصر کاظمی
یہاں کسی کو بھی کچھ حسبِ آرزو نہ ملا
یہاں کسی کو بھی کچھ حسبِ آرزو نہ ملا
کسی کو ہم نہ ملے اور ہم کو تو نہ ملا
چمکتے چاند بھی تھے شہرِ شب کے ایواں میں
نگارِ غم سا مگر کوئی شمع رو نہ ملا
انہی کی رمز چلی ہے گلی گلی میںیہاں
جنہیں اِدھر سے کبھی اذنِ گفتگو نہ ملا
پھر آج میکدہ دل سے لوٹ آئے ہیں
پھر آج ہم کو ٹھکانے کا ہم سبو نہ ملا
یہ کیا کہ اک جہاں کو کرو وقفِ اضطراب
یہ کیا کہ اک جہاں کو کرو وقفِ اضطراب
یہ کیا کہ ایک دل کو شکیبا نہ کر سکو
ایسا نہ ہو یہ درد بنے دردِ لا دوا
ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کر سکو
شاید تمھیں بھی چین نہ آئے مرے بغیر
شاید یہ بات تم بھی گوارا نہ کر سکو
کیا جانے پھر ستم بھی میسّر ہو یا نہ ہو
کیا جانے یہ کرم بھی کرو یا نہ کر سکو
اللہ کرے جہاں کو مری یاد بھول جائے
اللہ کرے کہ تم کبھی ایسا نہ کر سکو
میرے سوا کسی کی نہ ہو تم کو جستجو
میرے سوا کسی کی تمنّا نہ کر سکو