آپ کا اعتبار کون کرے

آپ کا اعتبار کون کرے
روز کا انتظار کون کرے

ذکر مہر و وفا تو ہم کرتے
پر تمہیں شرمسار کون کرے

جو ہو اوس چشم مست سے بیخود
پھر اوسے ہوشیار کون کرے

تم تو ہو جان اِک زمانے کی
جان تم پر نثار کون کرے

آفتِ روزگار جب تم ہو
شکوہء روزگار کون کرے

اپنی تسبیح رہنے دے زاہد
دانہ دانہ شمار کون کرے

ہجر میں زہر کھا کے مر جاؤں
موت کا انتظار کون کرے

آنکھ ہے ترک زلف ہی صیّاد
دیکھیں دل کا شکار کون کرے

غیر نے تم سے بیوفائی کی
یہ چلن اختیار کون کرے

وعدہ کرتے نہیں یہ کہتے ہیں
تجھ کو امیدوار کون کرے

داغ کی شکل دیکھ کر بولے
ایسی صورت کو پیار کون کرے

یوں چلئے راہِ شوق میں جیسے ہوا چلے

یوں چلئے راہِ شوق میں جیسے ہوا چلے
ہم بیٹھ بیٹھ کر جو چلےبھی تو کیا چلے

بیٹھے اُداس اُٹھے پریشان خفا چلے
پوچھے تو کوئی آپ سے کیا آئے کیا چلے

آئینگی ٹوٹ ٹوٹ کر قاصد پر آفتیں
غافل اِدھر اُدھر بھی ذرا دیکھتا چلے

ہم ساتھ ہو لئے تو کہا اُس نے غیر سے
آتا ہے کون اس سے کہو یہ جُدا چلے

بالیں سے میرے آج وہ یہ کہہ کے اُٹھے گی
اس پر دوا چلے نہ کسی کی دعا چلے

موسیٰ کی طرح راہ میں پوچھی نہ راہ راست
خاموش خضر ساتھ ہمارے چلا چلے

افسانہء رقیب بھی لو بے اثر ہوا
بگڑی جو سچ کہے سے وہاں جھوٹ کیا چلے

رکھا دل و دماغ کو تو روک تھام کر
اس عمر بیوفا پہ مرا زور کیا چلے

بیٹھا ہے اعتکاف میں‌کیا داغ روزہ دار
اے کاش میکدہ کو یہ مردِ خدا چلے

کب سماں تھا بہار سے پہلے

کب سماں تھا بہار سے پہلے
غم کہاں تھا بہار سے پہلے

ایک ننھا سا آرزو کا دیا
ضوفشاں تھا بہار سے پہلے

اب تماشا ہے چار تنکوں‌کا
آشیاں تھا بہار سے پہلے

اے مرے دل کے داغ یہ تو بتا
تو کہاں تھا بہار سے پہلے

پچھلی شب میں خزان کا سناٹا
ہم زباں‌تھا بہار سے پہلے

چاندنی میں‌یہ آگ کا دریا
کب رواں تھا بہار سے پہلے

بن گیا ہے سحابِ موسمِ گل
جو دھواں تھا بہار سے پہلے

لُٹ گئی دل کی زندگی ساغر
دل جواں‌تھا بہار سے پہلے

اِس کا سوچا بھی نہ تھا اب کے جو تنہا گزری

اِس کا سوچا بھی نہ تھا اب کے جو تنہا گزری
وہ قیامت ہی غنیمت تھی جو یکجا گزری

آ گلے تجھ کو لگا لوں میرے پیارے دشمن
اک مری بات نہیں تجھ پہ بھی کیا کیا گزری

میں تو صحرا کی تپش، تشنہ لبی بھول گیا
جو مرے ہم نفسوں پر لب ِدریا گزری

آج کیا دیکھ کے بھر آئی ہیں تیری آنکھیں
ہم پہ اے دوست یہ ساعت تو ہمیشہ گزری

میری تنہا سفری میرا مقدر تھی فراز
ورنہ اس شہر ِتمنا سے تو دنیا گزری

سب مایا ہے، سب ڈھلتی پھرتی چھایا ہے

سب مایا ہے، سب ڈھلتی پھرتی چھایا ہے
اس عشق میں ہم نے جو کھویا جو پایا ہے
جو تم نے کہا ہے، فیض نے جو فرمایا ہے
سب مایا ہے

ہاں گاہے گاہے دید کی دولت ہاتھ آئی
یا ایک وہ لذت نام ہے جس کا رسوائی
بس اس کے سوا تو جو بھی ثواب کمایا ہے
سب مایا ہے

اک نام تو باقی رہتا ہے، گر جان نہیں
جب دیکھ لیا اس سودے میں نقصان نہیں
تب شمع پہ دینے جان پتنگا آیا ہے
سب مایا ہے

معلوم ہمیں سب قیس میاں کا قصہ بھی
سب ایک سے ہیں، یہ رانجھا بھی یہ انشا بھی
فرہاد بھی جو اک نہر سی کھود کے لایا ہے
سب مایا ہے

کیوں درد کے نامے لکھتے لکھتے رات کرو
جس سات سمندر پار کی نار کی بات کرو
اس نار سے کوئی ایک نے دھوکا کھایا ہے
سب مایا ہے

جس گوری پر ہم ایک غزل ہر شام لکھیں
تم جانتے ہو ہم کیونکر اس کا نام لکھیں
دل اس کی بھی چوکھٹ چوم کے واپس آیا ہے
سب مایا ہے

وہ لڑکی بھی جو چاند نگر کی رانی تھی
وہ جس کی الھڑ آنکھوں میں حیرانی تھی
آج اس نے بھی پیغام یہی بھجوایا ہے
سب مایا ہے

جو لوگ ابھی تک نام وفا کا لیتے ہیں
وہ جان کے دھوکے کھاتے، دھوکے دیتے ہیں
ہاں ٹھوک بجا کر ہم نے حکم لگایا ہے
سب مایا ہے

جب دیکھ لیا ہر شخص یہاں ہرجائی ہے
اس شہر سے دور ایک کُٹیا ہم نے بنائی ہے
اور اس کُٹیا کے ماتھے پر لکھوایا ہے
سب مایا ہے

ہر سُو دِکھائی دیتے ہیں وہ جلوہ گر مجھے

ہر سُو دِکھائی دیتے  ہیں وہ جلوہ گر  مجھے
کیا کیا فریب دیتی ہے میری نظر  مجھے

آیا نہ راس نالۂ دل کا اثر  مجھے
اب تم ملے تو کچھ نہیں اپنی خبر  مجھے

ڈالا ہے بیخودی نے عجب راہ  پر  مجھے
آنکھیں ہیں اور کچھ نہیں آتا نظر  مجھے

کرنا ہے آج حضرتِ ناصح کا سامنا
مل جائے دو گھڑی کو تمہاری نظر  مجھے

یکساں ہے حُسن و عشق کی سرمستیوں کا رنگ
اُن کی خبر نہیں ہے نہ اپنی خبر  مجھے

میں دُور ہوں تو روحِ سخن مجھ سے کس لیے
تم پاس ہو تو کیوں نہیں آتا نظر  مجھے

دل لے کے میرا دیتے ہو داغِؔ جگر  مجھے
یہ بات بھولنے کی نہیں عمر بھر  مجھے

ہم کہ چہرے پہ نہ لائے کبھی ویرانی کو

ہم کہ چہرے پہ نہ لائے کبھی ویرانی کو
یہ بھی کافی نہیں‌ظالم کی پشیمانی کو

کارِ فرہاد سے یہ کم تو نہیں‌جو ہم نے
آنکھ سے دل کی طرف موڑ دیا پانی کو

شیشہء شوق پہ تُو سنگِ ملامت نہ گرا
عکسِ گل رنگ ہی کافی ہے گراں جانی کو

تُو رکے یا نہ رکے فیصلہ تجھ پر چھوڑا
دل نے در کھول دئیے ہیں‌تری آسانی کو

دامنِ چشم میں تارا ہے نہ جگنو کوئی
دیکھ اے دوست مری بے سر و سامانی کو

ہاں مجھے خبط ہے سودا ہے جنوں ہے شاید
دے لو جو نام بھی چاہو مری نادانی کو

جس میں مفہوم ہو کوئی نہ کوئی رنگِ غزل
سعد جی آگ لگے ایسی زباں دانی کو

تجھی سے ابتدا ہے، تو ہی اک دن انتہا ہوگا

تجھی سے ابتدا ہے، تو ہی اک دن انتہا ہوگا
صدائے ساز ہوگی اور نہ ساز بے صدا ہوگا

ہمیں‌ معلوم ہے، ہم سے سنو محشر میں‌کیا ہوگا
سب اس کو دیکھتے ہوں‌گے، وہ ہم کو دیکھتا ہوگا

سرمحشر ہم ایسے عاصیوں کا اور کیا ہوگا
درِجنت نہ وا ہوگا، درِ رحمت تو وا ہوگا

جہنم ہو کہ جنت ، جو بھی ہوگا فیصلہ ہوگا
یہ کیا کم ہے ہمارا اور اُن کا سامنا ہوگا

ازل ہو یا ابد دونوں اسیر زلف حضرت ہیں
جدھر نظریں‌اُٹھاؤ گے، یہی اک سلسلہ ہوگا

یہ نسبت عشق کی بے رنگ لائے رہ نہیں‌سکتی
جو محبوب خدا ہوگا، وہ محبوبِ خدا ہوگا

اسی امید پر ہم طالبان درد جیتے ہیں
خوشا دردے کہ تیرا درد، در د ِ لا دوا ہوگا

نگاہِ قہر پر بھی جان و دل سب کھوئے بیٹھا ہے
نگاہِ مہر ِ عاشق پر اگر ہوگی تو کیا ہوگا

یہ مانا بھیج دے گا ہم کو محشر سے جہنم میں
مگر جو دل پہ گذرے گی، وہ دل ہی جانتا ہوگا

سمجھتا کیا ہے تو دیوان گاہِ عشق کو زاہد؟
یہ ہو جائیں گی جس جانب، اسی جانب خدا ہوگا

جگر کا ہاتھ ہوگا حشر میں اور دامنِ حضرت
شکایت ہوگا، شکوہ جو بھی ہوگا، برملا ہوگا

ہم جان فدا کرتے ، گر وعدہ وفا ہوتا

ہم جان فدا کرتے ، گر وعدہ وفا ہوتا
مرنا ہی مقدر تھا ، وہ آتے تو کیا ہوتا

ایک ایک ادا سو سو، دیتی ہے جواب اسکے
کیونکر لبِ قاصد سے، پیغام ادا ہوتا

اچھی ہے وفا مجھ سے، جلتے ہیں جلیں دشمن
تم آج ہُوا سمجھو، جو روزِ جزا ہوتا

جنّت کی ہوس واعظ ، بے جا ہے کہ عاشق ہوں
ہاں سیر میں جی لگتا، گر دل نہ لگا ہوتا

اس تلخیِ حسرت پر، کیا چاشنیِ الفت
کب ہم کو فلک دیتا، گر غم میں مزا ہوتا

تھے کوسنے یا گالی، طعنوں کا جواب آخر
لب تک غمِ غیر آتا، گر دل میں بھرا ہوتا

ہے صلح عدو بے خط، تھی جنگ غلط فہمی
جیتا ہے تو آفت ہے، مرتا تو بلا ہوتا

ہونا تھا وصال اک شب، قسمت میں بلا سے گر
تُو مجھ سے خفا ہوتا، میں تجھ سے خفا ہوتا

ہے بے خودی دایم، کیا شکوہ تغافل کا
جب میں نہ ہوا اپنا، کیونکر وہ مرا ہوتا

اس بخت پہ کوشش سے، تھکنے کے سوا حاصل
گر چارۂ غم کرتا، رنج اور سوا ہوتا

اچھی مری بدنامی تھی یا تری رُسوائی
گر چھوڑ نہ دیتا، میں پامالِ جفا ہوتا

دیوانے کے ہاتھ آیا کب بندِ قبا اُس کا
ناخن جو نہ بڑھ جاتے، تو عقدہ یہ وا ہوتا

ہم بندگئ بت سے ہوتے نہ کبھی کافر
ہر جاے گر اے مومن موجود خدا ہوتا

دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد

دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد
اب مجھ کو نہیں کچھ بھی محبت کے سوا یاد

چھیڑا تھا جسے پہلے پہل تیری نظر نے
اب تک ہے وہ اک نغمۂ بے ساز و صدا یاد

کیا لطف کہ میں اپنا پتہ آپ بتاؤں
کیجیے کوئی بھولی ہوئی خاص اپنی ادا یاد

جب کوئی حسیں ہوتا ہے سرگرم نوازش
اس وقت وہ کچھ اور بھی آتے ہیں سوا یاد

کیا جانیے کیا ہو گیا ارباب جنوں کو
مرنے کی ادا یاد نہ جینے کی ادا یاد

مدت ہوئی اک حادثۂ عشق کو لیکن
اب تک ہے ترے دل کے دھڑکنے کی صدا یاد

وہی قصے ہیں وہی بات پرانی اپنی

وہی قصے ہیں وہی بات پرانی اپنی
کون سنتا ہے بھلا رام کہانی اپنی

ہر ستمگر کو یہ ہمدرد سمجھ لیتی ہے
کتنی خوش فہم ہے کمبخت جوانی اپنی

روز ملتے ہیں دریچے میں نئے پھول کھلے
چھوڑ جاتا ہے کوئی روز نشانی اپنی

تجھ سے بچھڑے ہیں تو پایا ہے بیاباں کا سکوت!
ورنہ دریاؤں سے ملتی تھی روانی اپنی!

قحطِ پندار کا موسم ہے سنہرے لوگو!
کچھ تیز کرو اب کے گرانی اپنی

دشمنوں سے ہی اب غمِ دل کا مداوا مانگیں
دوستوں نے تو کوئی بات نہ مانی اپنی

آج پھر چاند افق پر نہیں ابھرا محسن
آج پھر رات نہ گزرے گی سہانی اپنی

گُل ترا رنگ چرا لائے ہیں گلزاروں میں

گُل ترا رنگ چرا لائے ہیں گلزاروں میں
جل رہا ہوں بھری برسات کی بوچھاروں میں

مجھ سے کترا کے نکل جا مگر اے جانِ جہاں!
دل کی لَو دیکھ رہا ہوں ترے رخساروں میں

مجھ کو نفرت سے نہیں پیار سے مصلوب کرو
میں بھی شامل ہوں محبت کے گنہ گاروں میں

حُسن بیگانۂ احساسِ جمال اچھا ہے
غنچے کھِلتے ہیں تو بِک جاتے ہیں بازاروں میں

ذکر کرتے ہیں ترا مجھ سے بعنوانِ جفا
چارہ گر پھول پرو لائے ہیں تلواروں میں

میرے کِیسے میں تو اک سُوت کی انٹی بھی نہ تھی
نام لکھوا دیا یوسف کے خریداروں میں

رُت بدلتی ہے تو معیار بدل جاتے ہیں
بلبلیں خار لیے پھرتی ہیں منقاروں میں

چُن لے بازارِ ہنر سے کوئی بہروپ ندیمؔ
اب تو فنکار بھی شامل ہیں اداکاروں میں

رُودادِ محبّت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کچھ بھول گئے

رُودادِ محبّت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کچھ بھول گئے
دو دِن کی مُسرّت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گئے

جب جام دیا تھا ساقی نے جب دور چلا تھا محفل میں
اِک ہوش کی ساعت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گیے

اب وقت کے نازک ہونٹوں پر مجروح ترنّم رقصاں ہے
بیدادِ مشیّت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بُھول گئے

احساس کے میخانے میں کہاں اَب فکر و نظر کی قندیلیں
آلام کی شِدّت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گئے

کُچھ حال کے اندھے ساتھی تھے کُچھ ماضی کے عیّار سجن
احباب کی چاہت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گئے

کانٹوں سے بھرا ہے دامنِ دِل شبنم سے سُلگتی ہیں پلکیں
پُھولوں کی سخاوت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گئے

اب اپنی حقیقت بھی ساغر بے ربط کہانی لگتی ہے
دُنیا کی کی حقیقت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گئے

بُھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیے

بُھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیے
تم سے کہیں ملا ہوں مجھے یاد کیجیے

منزل نہیں ہوں ، خضر نہیں ، راہزن نہیں
منزل کا راستہ ہوں مجھے یاد کیجیے

میری نگاہِ شوق سے ہر گُل ہے دیوتا
میں عشق کا خدا ہوں مجھے یاد کیجیے

نغموں کی ابتدا تھی کبھی میرے نام سے
اشکوں کی انتہا ہوں مجھے یاد کیجیے

گُم صُم کھڑی ہیں‌دونوں جہاں کی حقیقتیں
میں اُن سے کہہ رہا ہوں مجھے یاد کیجیے

ساغر کسی کے حُسنِ تغافل شعار کی
بہکی ہوئی ادا ہوں مجھے یاد کیجیے


محفلیں لُٹ گئیں جذبات نے دم توڑ دیا

محفلیں لُٹ گئیں جذبات نے دم توڑ دیا
ساز خاموش ہیں نغمات نے دم توڑ دیا

ہر مسرت غمِ دیروز کا عنوان بنی
وقت کی گود میں لمحات نے دم توڑ دیا

اَن گِنت محفلیں محرومِ چراغاں ہیں ابھی
کون کہتا ہے کہ ظلمات نے دم توڑدیا

اَن گِنت محفلیں محرومِ چراغاں ہیں ابھی
کون کہتا ہے کہ ظلمات نے دَم توڑدیا

آج پھر بُجھ گئے جَل جَل کے امیدوں کے چراغ
آج پھر تاروں بھری رات نے دَم توڑدیا

جن سے افسانۂ ہستی میں تسلسل تھا کبھی
اُن محبّت کی روایات نے دم توڑدیا

جھلملاتے ہوئے اشکوں کی لڑی ٹوٹ گئی
جگمگاتی ہوئی برسات نے دم توڑ دیا

ہائے آدابِ محبّت کے تقاضے ساغر
لب ہلے اور شکایات نے دم توڑدیا

خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اترے

خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو

یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو

یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو

گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں
کہ پتھروں کو بھی روئیدگی محال نہ ہو

خدا کرے نہ کبھی خم سرِ وقارِ وطن
اور اس کے حسن کو تشویشِ ماہ و سال نہ ہو

ہر ایک فرد ہو تہذیب و فن کا اوجِ کمال
کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو

خدا کرے کہ مرے اک بھی ہم وطن کے لیے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو

پیش کرتی ہے عجب حسن کا معیار غزل


پیش کرتی ہے عجب حسن کا معیار غزل
لے اُڑی ہے ترا لہجہ، تری گُفتار غزل
دو دھڑکتے ہوئے دل یوں دھڑک اُٹھّے اک ساتھ
جیسے مِل جُل کے بنا دیتے ہیں اشعار غزل
کوئی شیریں سخن آیا بھی، گیا بھی لیکن
گنگناتے ہیں ابھی تک در و دیوار غزل
میں تو آیا تھا یہاں چَین کی سانسیں لینے
چھیڑ دی کس نے سرِ دامنِ کہسار غزل
مریمِ شعر پہ ہیں اہلِ ہوَس کی نظریں
فتنۂ وقت سے ہے بر سرِ پیکار غزل
تو نے خط میں مجھے "سرکارِ غزل" لکھا ہے
تجھ پہ سو بار نچھاور مری سرکار، غزل
گھر کے بھیدی نے تو ڈھائی ہے قیامت شبنم
کر گئی ہے مجھے رسوا سرِ بازار غزل

بے چین بہت پھرنا گھبرائے ہوئے رہنا

بے چین بہت پھرنا گھبرائے ہوئے رہنا
اِک آگ سی جذبوں کی دہکائے ہوئے رہنا

چھلکائے ہوئے چلنا خوشبو لبِ لعلیں کی
اک باغ سا ساتھ اپنے مہکائے ہوئے رہنا

اس حسن کا شیوہ ہے جب عشق نظر آئے
پردے میں چلے جانا، شرمائے ہوئے رہنا

اک شام سی کر رکھنا کاجل کے کرشمے سے
اک چاند سا آنکھوں میں چمکائے ہوئے رہنا

عادت ہی بنا لی ہے تم نے تو منیر اپنی
جس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا

سُن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا

سُن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا

کیا کیا اُلجھتا ہے تری زلفوں کے تار سے
بخیہ طلب ہے سینہء صد چاک شانہ کیا؟

زیرِ زمین سے آتا ہے جو گل سو زر بکف
قاروں نے راستے میں خزانہ لٹایا کیا؟

چاروں طرف سے صورتِ جاناں ہو جلوہ گر
دل صاف ہو ترا تو ہے آئینہ خانہ کیا

طبل و عَلم ہے پاس نہ اپنے ہے ملک و مال
ہم سے خلاف ہو کے کرے گا زمانہ کیا

صیّاد گُل عذار دکھاتا ہے سیرِ باغ
بلبل قفس میں یاد کرے آشیانہ کیا

یوں مدّعی حسد سے نہ دے داد تو نہ دے
آتِش غزل یہ تو نے کہی عاشقانہ کیا

کس قدر آگ برستی ہے یہاں

کس قدر آگ برستی ہے یہاں
خلق شبنم کو ترستی ہے یہاں

صرف اندیشۂ افعی ہی نہیں
پھول کی شاخ بھی ڈستی ہے یہاں

رُخ کدھر موڑ گیا ہے دریا
اب نہ وہ لوگ نہ بستی ہے یہاں

زندہ درگور ہُوئے اہلِ نظر
کس قدر مُردہ پرستی ہے یہاں

زیست وہ جنسِ گراں ہے کہ فراز
موت کے مول بھی سَستی ہے یہاں

تازہ ہوا کا جھونکا بنایا گیا مجھے


تازہ ہوا کا جھونکا بنایا گیا مجھے
دنیائے بے نمو میں پھرایا گیا مجھے

میں آنکھ سے گرا تو زمیں کے صدف میں تھا
بہرِ جمالِ عرش اُٹھایا گیا مجھے

سازش میں کون کون تھا، مجھ کو نہیں ہے علم
مُصحَف میں اک ہی نام بتایا گیا مجھے

بخشی گئی بہشت مجھے کس حساب میں؟
دوزخ میں کس بنا پہ جلایا گیا مجھے؟

چیخا کبھی جو دہر کے ظلم و ستم پہ میں
قسمت کی لوری دے کے سُلایا گیا مجھے

بیدادِ دہر نے جو کیا سنگ دل ہمیں
تو کربلا دکھا کے رُلایا گیا مجھے

تسخیرِ کائنات کا تھا مرحلہ اسد
یوں ہی نہیں یہ علم سکھایا گیا مجھے

ہر ایک چہرے پہ دل کو گُمان اس کا تھا

ہر ایک چہرے پہ دل کو گُمان اس کا تھا
بسا نہ کوئی یہ خالی مکان اس کا تھا
میں بے جہت ہی رہا اور بے مقام سا وہ
ستارہ میرا سمندر نشان اس کا تھا
میں اُس طلسم سے باہر کہاں تلک جاتا
فضا کھلی تھی مگر آسمان اس کا تھا
سلیقہ عشق میں جاں اپنی پیش کرنے کا
جنہیں بھی آیا تھا ان کو ہی دھیان اس کا تھا
پھر اس کے بعد کوئی بات بھی ضروری نہ تھی
مرے خلاف سہی وہ بیان اس کا تھا
ہوا نے اب کے جلائے چراغ رستے میں
کہ میری راہ میں عادل مکان اس کا تھا

تیرے خیال سے لو دے اُٹھی ہے تنہائی

تیرے خیال سے لو دے اُٹھی ہے تنہائی
شبِ فراق ہے یا تیری جلوہ آرائی
تُو کس خیال میں ہے منزلوں کے شیدائی
انہیں بھی دیکھ جنہیں راستے میں نیند آئی
پکار اے جرسِ کاروانِ صبح طرب
بھٹک رہے ہیں اندھیروں میں تیرے سودائی
ٹھہر گئے ہیں سرِراہ خاک اڑانے کو
مسافروں کو نہ چھیڑ اے ہوائے صحرائی
رہِ حیات میں کچھ مرحلے تو دیکھ لیے
یہ اور بات تری آرزو نہ راس آئی
یہ سانحہ بھی محبت میں بارہا گزرا
کہ اس نے حال بھی پوچھا تو آنکھ بھر آئی
دل افسردہ میں پھر دھڑکنوں کا شور اٹھا
یہ بیٹھے بیٹھے مجھے کن دنوں کی یاد آئی
کھلی جو آنکھ تو کچھ اور ہی سماں دیکھا
وہ لوگ تھے نہ وہ جلسے نہ شہر رعنائی
پھر اس کی یاد میں دل بے قرار ہے ناصر
بچھڑ کے جس سے ہوئی شہر شہر رسوائی

اپنی تنہائی مرے نام پہ آباد کرے

اپنی تنہائی مرے نام پہ آباد کرے

کون ہو گا جو مجھے اس کی طرح یاد کرے

دل عجب شہر کہ جس پر بھی کھلا در اس کا

وہ مسافر اسے ہر سمت سے برباد کرے

اپنے قاتل کی ذہانت سے پریشان ہوں میں

روز اِک موت نئے طرز کی ایجاد کرے

اتنا حیراں ہو مری بے طلبی کے آگے

واقفس میں کوئی در خود میرا صیاد کرے

سلب بینائی کے احکام ملے ہیں جو کبھی

روشنی چھونے کی خواہش کوئی شب زاد کرے

سوچ رکھنا بھی جرائم میں ہے شامل اب تو

وہی معصوم ہے ہر بات پہ جو صاد کرے

جب لہو بول پڑے اس کی گواہی کے خلاف

قاضی شہر کچھ اس بات میں ارشاد کرے

اس کی مٹھی میں بہت روز رہا میرا وجود

میرے ساحر سے کہو اب مجھے آزاد کرے

دشت کی تیز ہواؤں میں بکھر جاؤگے کیا

دشت کی تیز ہواؤں میں بکھر جاؤگے کیا
ایک دن گھر نہیں جاؤ گے تو مر جاؤ گے کیا
پیڑ نے چاند کو آغوش میں لے رکھا ہے
میں تمھیں روکنا چاہوں تو ٹھہر جاؤگے کیا
یہ زمستانِ تعلق یہ ہوائے قربت
آگ اوڑھو گے نہیں یونہی ٹھٹھر جاؤگے
یہ تکلم بھری آنکھیں، یہ ترنّم بھرے ہونٹ
تم اسی حالتِ رسوائی میں گھر جاؤگے کیا
لوٹ آؤگے مرے پاس پرندے کی طرح
مری آواز کی سرحد سے گزر جاؤگے کیا
چھوڑ کر ناؤ میں تنہا مجھے عاصم تم بھی
کسی گمنام جزیرے پہ اُتر جاؤگے کیا

میں نے ہر چند غمِ عشق کو کھونا چاہا

میں نے ہر چند غمِ عشق کو کھونا چاہا
غمِ الفت غمِ دنیا میں سمونا چاہا
وہی افسانے مری سمت رواں ہیں اب تک
وہی شعلے مرے سینے میں نہاں ہیں اب تک
وہی بے سود خلش ہے مرے سینے میں ہنوز
وہی بیکار تمنائیں جواں ہیں‌اب تک
وہی گیسو مری راتوں پہ ہیں بکھرے بکھرے
وہی آنکھیں مری جانب نگراں ہیں اب تک
کثرتِ غم بھی مرے غم کا مداوا نہ ہوئی!
میرے بے چین خیالوں کو سکون مل نہ سکا
دل نے دنیا کے ہر اک درد کو اپنا تو لیا
مضمحل روح کو اندازِ جنوں مل نہ سکا
میری تخئیل کا شیرازۂ برہم ہے وہی
میرے بجھتے ہوئے احساس کا عالم ہے وہی
وہی بے جان ارادے وہی بے رنگ سوال
وہی بے روح کشاکش وہی بے چین خیال
آہ اس کشمکشِ صبح و مسا کا انجام
میں بھی ناکام مری سعی عمل بھی ناکام

مجھے سوچنے دے

میری ناکام محبت کی کہانی مت چھیڑ
اپنی مایوس امنگوں کا فسانہ نہ سنا
زندگی تلخ سہی ، زہر سہی، سم ہی سہی
دردو آزار سہی، جبر سہی، غم ہی سہی
لیکن اس درد و غم و جبر کی وسعت کو تو دیکھ
ظلم کی چھاؤں میں دم توڑتی خلقت کو تو دیکھ
اپنی مایوس امنگوں کا فسانہ نہ سنا
میری ناکام محبت کی کہانی مت چھیڑ
جلسہ گاہوں میں یہ دہشت زدہ سہمے انبوہ
رہ گزاروں پہ فلاکت زدہ لوگوں کا گروہ
بھوک اور پیاس سے پژمردہ سیہ فام زمیں
تیرہ و تار مکاں، مفلس و بیمار مکیں
نوعِ انساں میں یہ سرمایہ و محنت کا تضاد
امن و تہذیب کے پرچم تلے قوموں کا فساد
ہر طرف آتش و آہن کا یہ سیلابِ عظیم
نت نئے طرز پہ ہوتی ہوئی دنیا تقسیم
لہلہاتے ہوئے کھیتوں پہ جوانی کا سماں
اور دہقان کے چھپر میں نہ بتی نہ دھواں
یہ فلک بوس ملیں دلکش و سمیں بازار
یہ غلاظت پہ چھپٹتے ہوئے بھوکے نادار
دور ساحل پہ وہ شفاف مکانوں کی قطار
سرسراتے ہوئے پردوں میں سمٹتے گلزار
درو دیوار پہ انوار کا سیلابِ رواں
جیسے اک شاعرِ مدہوش کے خوابوں کا جہاں
یہ سبھی کیوں ہے یہ کیا ہے مجھے کچھ سوچنے دے
کون انساں کا خدا ہے مجھے کچھ سوچنے دے
اپنی مایوس امنگوں کا فسانہ نہ سنا
میری ناکام محبت کی کہانی مت چھیڑ

سوچتا ہوں

سوچتا ہوں‌کہ محبت سے کنارا کرلوں
دل کو بیگانۂ ترغیب و تمنا کرلوں
سوچتا ہوں‌کہ محبت ہے جنونِ رسوا
چند بے کار سے بے ہودہ خیالوں کا ہجوم
ایک آزاد کو پابند بنانے کی ہوس
ایک بیگانے کو اپنانے کی سعئ موہوم
سوچتا ہوں کہ محبت سے سرور و مستی
اس کی تنویر سے روشن ہے فضائے ہستی
سوچتا ہوں کہ محبت ہے بشر کی فطرت
اس کا مٹ جانا مٹا دینا بہت مشکل ہے
سوچتا ہوں کہ محبت سے ہے تابندہ حیات
اور یہ شمع بجھا دینا بہت مشکل ہے
سوچتا ہوں کہ محبت پہ کڑی شرطیں ہیں
اس تمدن میں مسرت پہ بڑی شرطیں ہیں
سوچتا ہوں کہ محبت ہے اک افسردہ سی لاش
چادرِ عزت و ناموس میں کفنائی ہوئی
دورِ سرمایہ کی روندی ہوئی رسوا ہستی
درگہِ مذہب و اخلاق سے ٹھکرائی ہوئی
سوچتا ہوں کہ بشر اور محبت کا جنوں
ایسے بوسیدہ تمدن میں ہے اک کار زبوں
سوچتا ہوں کہ محبت نہ بچے گی زندہ
پیش ازاں وقت کہ سڑ جائے یہ گلتی ہوئی لاش
یہی بہتر ہے کہ بیگانۂ الفت ہو کر
اپنے سینے میں‌کروں جذبۂ نفرت کی تلاش
سوچتا ہوں کہ محبت سے کنارا کر لوں
دل کو بیگانۂ ترغیب و تمنا کر لوں

کسی کو اداس دیکھ کر

تمہیں اداس سا پاتا ہوں میں کئی دن سے
نہ جانے کون سے صدمے اٹھا رہی ہوتم
وہ شوخیاں وہ تبسم وہ قہقہے نہ رہے
ہر ایک چیز کو حسرت سے دیکھتی ہو تم
چھپا چھپا کے خموشی میں اپنی بے چینی
خود اپنے راز کی تشہیر بن گئی ہو تم
میری امید اگر مٹ گئی تو مٹنے دو
امید کیا ہے بس اک پیش و پس ہے کچھ بھی نہیں
میری حیات کی غمگینیوں کاغم نہ کرو
غمِ حیات غم یک نفس ہے کچھ بھی نہیں
تم اپنے حسن کی رعنائیوں پہ رحم کرو
وفا فریب ہے، طول ہوس ہے کچھ بھی نہیں
مجھے تمہارے تغافل سے کیوں شکایت ہو؟
مری فنا مرے احساس کا تقاضا ہے
میں‌ جانتا ہوں کہ دنیا کا خوف ہے تم کو
مجھے خبر ہے یہ دنیا عجیب دنیا ہے
یہاں حیات کے پردے میں موت پلتی ہے
شکستِ ساز کی آواز روحِ نغمہ ہے
مجھے تمہاری جدائی کا کوئی رنج نہیں
مرے خیال کی دنیا میں‌میرے پاس ہو تم
یہ تم نے ٹھیک کہا ہے تمہیں ملا نہ کروں
مگر مجھے یہ بتا دو کہ کیوں اداس ہو تم
خفا نہ ہونا مری جرأت تخاطب پر؟
تمہیں‌خبر ہے مری زندگی کی آس ہو تم
مرا تو کچھ بھی نہیں ہے میں رو کے جی لوں گا
مگر خدا کے لیے تم اسیرِ‌غم نہ رہو
ہوا ہی کیا جو زمانے نے تم کو چھین لیا
یہاں پہ کون ہوا ہے کسی کا، سوچو تو
مجھے قسم ہے مری دکھ بھری جوانی کی
میں خوش ہوں میری محبت کے پھول ٹھکرا دو
میں اپنی روح کی ہر اک خوشی مٹا لوں گا
مگر تمہاری مسرت مٹا نہیں سکتا
میں‌ خود کو موت کے ہاتھوں میں‌سونپ سکتاہوں
مگر یہ بارِ مصائب اٹھا نہیں سکتا
تمہارے غم کے سوا اور بھی تو غم ہیں مجھے
نجات جن سے میں اک لحظہ پا نہیں ‌سکتا
یہ اونچے اونچے مکانوں کی ڈیوڑھیوں کے تلے
ہر ایک گام پہ بھوکے بھکاریوں کی صدا
ہر ایک گھر میں ہے افلاس اور بھوک کا شور
ہر ایک سمت یہ انسانیت کی آہ و بکا
یہ کارخانوں میں لوہے کا شوروغل جس میں
ہےدفن لاکھوں غریبوں کی روح کا نغمہ
یہ شاہراہوں پہ رنگین ساڑھیوں کی جھلک
یہ جھونپڑوں میں‌غریبوں کے بے کفن لاشے
یہ مال روڈ پہ کاروں کی ریل پیل کا شور
یہ پٹڑیوں پہ غریبوں کے زرد رو بچے
گلی گلی میں یہ بکتے ہوئے جواں چہرے
حسین آنکھوں میں افسردگی سی چھائی ہوئی
یہ جنگ اور یہ میرے وطن کے شوخ جواں
خریدی جاتی ہے اٹھتی جوانیاں جن کی
یہ بات بات پہ قانون و ضابطے کی گرفت
یہ ذلّتیں، یہ غلامی یہ دورِ مجبوری
یہ غم بہت ہیں مری زندگی مٹانے کو
اداس رہ کے مرے دل کو اور رنج نہ دو

تنگ آ چکے ہیں کشمکشِ زندگی سےہم

تنگ آ چکے ہیں کشمکشِ زندگی سے ہم
ٹھکرا نہ دیں جہاں کو کہیں‌ بے دلی سے ہم
مایوسئ مآلِ محبت نہ پوچھئے
اپنوں سے پیش آئے ہیں ‌بیگانگی سے ہم
لو آج ہم نے توڑ دیا رشتۂ امید
لو اب کبھی گلہ نہ کریں گے کسی سے ہم
ابھریں گے ایک بار ابھی دل کے ولولے
گودب گئے ہیں بارِ غمِ زندگی سے ہم
گر زندگی میں مل گئے پھر اتفاق سے
پوچھیں گے اپنا حال تری بے بسی سے ہم
اللہ رے فریبِ مشیت کہ آج تک
دنیا کے ظلم سہتے رہے خامشی سے ہم

خودداریوں کےخون کو ارزاں نہ کرسکے

خودداریوں کےخون کو ارزاں نہ کرسکے
ہم اپنے جوہروں کو نمایاں نہ کر سکے
ہو کر خرابِ مے ترے غم تو بھلا دیئے
لیکن غمِ حیات کا درماں نہ کر سکے
ٹوٹا طلسمِ عہد محبّت کچھ اس طرح
پھر آرزو کی شمع فروزاں نہ کر سکے
ہر شے قریب آکے کشش اپنی کھو گئی
وہ بھی علاجِ شوق گریزاں نہ کرسکے
کس درجہ دل شکن تھے محبت کے حادثے
ہم زندگی میں پھر کوئی ارماں نہ کرسکے
مایوسیوں نے چھین لیے دل کے ولولے
وہ بھی نشاطِ روح کا ساماں نہ کر سکے

خلوت و جلوت میں تم مجھ سے ملی ہو بارہا

خلوت و جلوت میں تم مجھ سے ملی ہو بارہا
تم نے کیا دیکھا نہیں، میں مسکرا سکتا نہیں
میں‌کہ مایوسی مری فطرت میں داخل ہو چکی
جبر بھی خود پر کروں‌تو گنگنا سکتا نہیں
مجھ میں کیا دیکھا کہ تم الفت کا دم بھرنے لگیں
میں تو خود اپنے بھی کوئی کام آسکتا نہیں
روح افزا ہیں جنونِ عشق کے نغمے مگر
اب میں ان گائے ہوئے گیتوں کو گاسکتا نہیں
میں نے دیکھا ہے شکستِ سازِ الفت کا سماں
اب کسی تحریک پر بربط اٹھا سکتا نہیں
دل تمہاری شدتِ احساس سے واقف تو ہے
اپنے احساسات سے دامن چھڑا سکتا نہیں
تم مری ہو کر بھی بیگانہ ہی پاؤ گی مجھے
میں تمہارا ہو کے بھی تم میں سما سکتا نہیں
گائے ہیں میں نے خلوصِ دل سے بھی الفت کے گیت
اب ریا کاری سے بھی چاہوں تو گا سکتا نہیں
کس طرح تم کو بنا لوں میں‌شریکِ زندگی
میں‌تو اپنی زندگی کا بار اٹھا سکتا نہیں
یاس کی تاریکیوں میں‌ ڈوب جانے دو مجھے
اب میں‌شمعِ ‌آرزو کی لو بڑھا سکتا نہیں

گلاب ہاتھ میں ہو ، آنکھ میں ستارہ ہو

گلاب ہاتھ میں ہو ، آنکھ میں ستارہ ہو

کوئی وجود محبّت کا استعارہ ہو

میں گہرے پانی کی اس رو کے ساتھ بہتی رہوں

جزیرہ ہو کہ مقابل کوئی کنارہ ہو

کبھی کبھار اُسے دیکھ لیں ،کہیں مل لیں

یہ کب کہا تھا کہ وہ خوش بدن ہمارا ہو

قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے

محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو

یہ اتنی رات گئے کون دستکیں دے گا

کہیں ہوا کا ہی اُس نے نہ رُوپ دھارا ہو

اُفق تو کیا ہے،درِ کہکشاں بھی چُھو آئیں

مُسافروں کو اگر چاند کا اشارہ ہو

میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں

کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو

اگر وجود میں آہنگ ہے تو وصل بھی ہے

میں چاہے نظم کا ٹکڑا، وہ نثر پارہ ہو

وہی پرند کہ کل گوشہ گیر ایسا تھا

وہی پرند کہ کل گوشہ گیر ایسا تھا

پلک جھپکتے ، ہَوا میں لکیر ایسا تھا

اسے تو دوست ہاتھوں کی سُوجھ بوجھ بھی تھے

خطا نہ ہوتا کسی طور ، تیر ایسا تھا

پیام دینے کا موسم نہ ہم نوا پاکر

پلٹ گیا دبے پاؤں ، سفیر ایسا تھا

کسی بھی شاخ کے پیچھے پناہ لیتی میں

مجھے وہ توڑ ہی لیتا، شریر ایسا تھا

ہنسی کے رنگ بہت مہربان تھے لیکن

اُداسیوں سے ہی نبھتی ، خمیر ایسا تھا

ترا کمال کہ پاؤں میں بیڑیاں ڈالیں

غزالِ شوق کہاں کا اسیر ایسا تھا!

میرے چھوٹے سے گھر کو یہ کس کی نظر، اے خُدا! لگ گئی

میرے چھوٹے سے گھر کو یہ کس کی نظر، اے خُدا! لگ گئی

کیسی کیسی دُعاؤں کے ہوتے ہُوئے بد دُعا لگ گئی

ایک بازو بریدہ شکستہ بدن قوم کے باب میں

زندگی کا یقیں کس کو تھا ، بس یہ کہیے ، دوا لگ گئی

جُھوٹ کے شہر میں آئینہ کیا لگا ، سنگ اُٹھائے ہُوئے

آئینہ ساز کی کھوج میں جیسے خلقِ خُدا لگ گئی

جنگلوں کے سفر میں توآسیب سے بچ گئی تھی ، مگر

شہر والوں میں آتے ہی پیچھے یہ کیسی بلا لگ گئی

نیم تاریک تنہائی میں سُرخ پُھولوں کا بن کِھل اُٹھا

ہجر کی زرد دیوار پر تیری تصویر کیا لگ گئی

وہ جو پہلے گئے تھے ، ہمیں اُن کی فرقت ہی کچھ کم نہ تھی

جان ! کیا تجھ کو بھی شہرِ نا مہرباں کی ہوا لگ گئی

دو قدم چل کے ہی چھاؤں کی آرزو سر اُٹھانے لگی

میرے دل کو بھی شاید ترے حوصلوں کی ادا لگ گئی

میز سے جانے والوں کی تصویر کب ہٹ سکی تھی مگر ،

درد بھی جب تھما ، آنکھ بھی جب ذرا لگ گئی

اب کیسی پردہ داری ، خبر عام ہو چکی

اب کیسی پردہ داری ، خبر عام ہو چکی

ماں کی ردا تو ، دن ہُوئے نیلام ہو چکی

اب آسماں سے چادرِ شب آئے بھی تو کیا

بے چاری زمین پہ الزام ہو چکی

اُجڑے ہُوئے دیارپہ پھر کیوں نگاہ ہے

اس کشت پر تو بارشِ اکرام ہو چکی

سُورج بھی اُس کو ڈھونڈ کے واپس چلا گیا

اب ہم بھی گھر کو لوٹ چلیں ، شام ہو چکی

شملے سنبھالتے ہی رہے مصلحت پسند

ہونا تھا جس کو پیار میں بدنام ہو چکی

کوہِ ندا سے بھی سخن اُترے اگر تو کیا

نا سامعوں میں حرمتِ الہام ہو چکی

دُکھ نوشتہ ہے تو آندھی کو لکھا ! آہستہ

دُکھ نوشتہ ہے تو آندھی کو لکھا ! آہستہ

اے خدا اب کے چلے زرد ہوا ، آہستہ

خواب جل جائیں ، مری چِشم تمنّا بُجھ جائے

بس ہتھیلی سے اُڑے رنگ حِنا آہستہ

زخم ہی کھولنے آئی ہے تو عجلت کیسی

چُھو مرے جسم کو ، اے بادِ صبا ! آہستہ!

ٹوٹنے اور بکھرنے کا کوئی موسم ہو

پُھول کی ایک دُعا۔۔۔۔موجِ ہوا! آہستہ

جانتی ہوں کہ بچھڑنا تری مجبوری ہے

مری جان ! ملے مجھ کو سزا آہستہ

میری چاہت میں بھی اب سوچ کا رنگ آنے لگا

اور ترا پیار بھی شدّت میں ہوا آہستہ

نیند پر جال سے پڑنے لگے آوازوں کے

اور پھر ہونے لگی تیری صدا آہستہ

رات جب پُھول کے رُخسار پہ دھیرے سے جھکی

’’چاند نے جھک کے کہا، اور ذرا آہستہ!‘‘

ہمیں کس طرح بھول جائے گی دنیا

ہمیں کس طرح بھول جائے گی دنیا
کہ ڈھونڈھے سے ہم سا نہ پائے گی دنیا
مجھے کیا خبر تھی کہ نقشِ وفا کو
بگاڑے گی دنیا بنائے گی دنیا
محبت کی دنیا میں کھویا ہوا ہوں
محبت بھرا مجھ کو پائے گی دنیا
ہمیں خوب دے فریب محبت
ہمارے نہ دھوکے میں آئے گی دنیا
قیامت کی دنیا میں ہے دل فریبی
قیامت میں بھی یاد آئے گی دنیا
رلا دوں میں بہزاد دنیا کو خود ہی
یہ مجھ کو بھلا کیا رلائے گی دنیا

ہر ایک روح میں اک غم چھپا لگے ہے مجھے

ہر ایک روح میں اک غم چھپا لگے ہے مجھے
یہ زندگی تو کوئی بد دعا لگے ہے مجھے
جو آنسووں میں کبھی رات بھیگ جاتی ہے
بہت قریب وہ آواز پا لگے ہے مجھے
میں سو بھی جاؤں تو کیا میری بند آنکھوں میں
تمام رات کوئی جھانکتا لگے ہے مجھے
میں جب بھی اس کے خیالوں میں کھو سا جاتا ہوں
وہ خود بھی بات کرے تو برا لگے ہے مجھے
دبا کے آئی ہے سینے میں کون سی آہیں
کچھ آج رنگ ترا سانولا لگے ہے مجھے
نہ جانے وقت کی رفتار کیا دکھاتی ہے
کبھی کبھی تو بڑا خوف سا لگے ہے مجھے
بکھر گیا ہے کچھ اس طرح آدمی کا وجود
ہر ایک فرد کوئی سانحہ لگے ہے مجھے
اب ایک آدھ قدم کا حساب کیا رکھیئے
ابھی تلک تو وہی فاصلہ لگے ہے مجھے
حکایتِ غمِ دل کچھ کشش تو رکھتی ہے
زمانہ غور سے سنتا ہوا لگے ہے مجھے

منظر ہے وہی ٹھٹک رہی ہوں

منظر ہے وہی ٹھٹک رہی ہوں

حیرت سے پلک جھپک رہی ہوں

یہ تُو ہے کہ میرا واہمہ ہے!

بند آنکھوں سے تجھ کو تک رہی ہوں

جیسے کہ کبھی نہ تھا تعارف

یوں ملتے ہوئے جھجک رہی ہوں

پہچان! میں تیری روشنی ہوں

اور تیری پلک پلک رہی ہوں

کیا چَین ملا ہے………سر جو اُس کے

شانوں پہ رکھے سِسک رہی ہوں

پتّھر پہ کھلی ، پہ چشمِ گُل میں

کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہوں

جگنو کہیں تھک کے گرِ چُکا ہے

جنگل میں کہاں بھٹک رہی ہوں

گڑیا مری سوچ کی چھنی کیا

بچّی کی طرح بِلک رہی ہوں

اِک عمر ہُوئی ہے خُود سے لڑتے

اندر سے تمام تھک رہی ہوں

رس پھر سے جڑوں میں جا رہا ہے

میں شاخ پہ کب سےپک رہی ہوں

تخلیقِ جمالِ فن کا لمحہ!

کلیوں کی طرح چٹک رہی ہوں

دن ٹھہر جائے ، مگر رات کٹے

دن ٹھہر جائے ، مگر رات کٹے

کوئی صورت ہو کہ برسات کٹے

خوشبوئیں مجھ کو قلم کرتی گئیں

شاخ در شاخ مرے ہات کٹے

موجۂ گُل ہے کہ تلوار کوئی

درمیاں سے ہی مناجات کٹے

حرف کیوں اپنے گنوائیں جا کر

بات سے پہلے جہاں بات کٹے

چاند! آ مِل کے منائیں یہ شب

آج کی رات ترے سات کٹے

پُورے انسانوں میں گُھس آئے ہیں

سر کٹے ، جسم کٹے ، ذات کٹے

اب کون سے موسم سے کوئی آس لگائے

اب کون سے موسم سے کوئی آس لگائے
برسات میں بھی یاد نہ جب اُن کو ہم آئے
مٹّی کی مہک سانس کی خوشبو میں اُتر کر
بھیگے ہوئے سبزے کی ترائی میں بُلائے
دریا کی طرح موج میں آئی ہُوئی برکھا
زردائی ہُوئی رُت کو ہرا رنگ پلائے
بوندوں کی چھما چھم سے بدن کانپ رہا ہے
اور مست ہوا رقص کی لَے تیز کیے جائے
شاخیں ہیں تو وہ رقص میں ، پتّے ہیں تو رم میں
پانی کا نشہ ہے کہ درختوں کو چڑھا جائے
ہر لہر کے پاؤں سے لپٹنے لگے گھنگھرو
بارش کی ہنسی تال پہ پا زیب جو چھنکائے
انگور کی بیلوں پہ اُتر آئے ستارے
رکتی ہوئی بارش نے بھی کیا رنگ دکھائے

بیتے دنوں کی یاد بھلائے نہیں بنے

بیتے دنوں کی یاد بھلائے نہیں بنے
یہ آخری چراغ بجھائے نہ بنے
دنیا نے جب مرا نہیں بننے دیا انہیں
پتھر تو بن گئے وہ پرائے نہیں بنے
توبہ کیے زمانہ ہوا، لیکن آج تک
جب شام ہو تو کچھ بھی بنائے نہیں بنے
پردے ہزار خندہ پیہم کے ڈالیے
غم وہ گناہ ہے کہ چھپائے نہیں بنے
یہ نصف شب یہ میکدے کا در یہ محتسب
ٹوکے کوئی تو بات بنائے نہیں بنے
جاتے تو ہیں صنم کدے سے حضرتِ خمار
لیکن خدا کرے کہ بن آئے نہ بنے

بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں

بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں
تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں
مری نظریں بھی ایسے قاتلوں کا جان و ایماں ہیں
نگاہیں ملتے ہی جو جان اور ایمان لیتے ہیں
طبیعت اپنی گھبراتی ہے جب سنسان راتوں میں
ہم ایسے میں تری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں
خود اپنا فیصلہ بھی عشق میں کافی نہیں ہوتا
اسے بھی کیسے کر گزریں جو دل میں ٹھان لیتے ہیں
جسے صورت بتاتے ہیں پتا دیتی ہے سیرت کا
عبارت دیکھ کر جس طرح معنی جان لیتے ہیں
تجھے گھاٹا نہ ہونے دیں گے کاروبارِ الفت میں
ہم اپنے سر ترا اے دوست ہر احسان لیتے ہیں
فراق اکثر بدل کر بھیس ملتا ہے کوئی کافر
کبھی ہم جان لیتے ہیں کبھی پہچان لیتے ہیں

لازم تھا کہ دیکھو مرا رستہ کوئی دِن اور

لازم تھا کہ دیکھو مرا رستہ کوئی دِن اور
تنہا گئے کیوں؟ اب رہو تنہا کوئی دن اور
مٹ جائےگا سَر ،گر، ترا پتھر نہ گھِسے گا
ہوں در پہ ترے ناصیہ فرسا کوئی دن اور
آئے ہو کل اور آج ہی کہتے ہو کہ ’جاؤں؟‘
مانا کہ ہمیشہ نہیں اچھا کوئی دن اور
جاتے ہوئے کہتے ہو ’قیامت کو ملیں گے‘
کیا خوب! قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور
ہاں اے فلکِ پیر! جواں تھا ابھی عارف
کیا تیرا بگڑ تا جو نہ مرتا کوئی دن اور
تم ماہِ شبِ چار دہم تھے مرے گھر کے
پھر کیوں نہ رہا گھر کا وہ نقشا کوئی دن اور
تم کون سے ایسے تھے کھرے داد و ستد کے
کرتا ملکُ الموت تقاضا کوئی دن اور
مجھ سے تمہیں نفرت سہی، نیر سے لڑائی
بچوں کا بھی دیکھا نہ تماشا کوئی دن اور
گزری نہ بہرحال یہ مدت خوش و ناخوش
کرنا تھا جواں مرگ گزارا کوئی دن اور
ناداں ہو جو کہتے ہو کہ ’کیوں جیتے ہیں غالب‘
قسمت میں ہے مرنے کی تمنا کوئی دن اور

دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی

دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی
دونوں کو اک ادا میں رضامند کر گئی

شق ہو گیا ہے سینہ خوشا لذّتِ فراغ
تکلیفِ پردہ داریِ زخمِ جگر گئی

وہ بادہ شبانہ کی سر مستیاں کہاں
اٹھیے بس اب کہ لذّتِ خوابِ سحر گئی

اڑتی پھرے ہے خاک مری کوۓ یار میں
بارے اب اے ہوا ہوسِ بال و پر گئی

دیکھو تو دل فریبیِ اندازِ نقشِ پا
موجِ خرامِ یار بھی کیا گل کتر گئی

ہر بو‌ل ہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب آبروۓ شیوہ اہلِ نظر گئی

نظّارے نے بھی کام کیا واں نقاب کا
مستی سے ہر نگہ ترے رخ پر بکھر گئی

فردا و دی کا تفرقہ یک بار مٹ گیا
کل تم گئے کہ ہم پہ قیامت گزر گئی

مارا زمانے نے اسدللہ خاں تمہیں
وہ ولولے کہاں وہ جوانی کدھر گئی

طائرِ دل

اٹھا اک دن بگولا سا جو کچھ میں جوشِ وحشت میں
پھرا آسیمہ سر، گھبراگیا تھا جی بیاباں سے
نظر آیا مجھے اک طائرِ مجروح پَر بستہ
ٹپکتا تھا سرِ شوریدہ دیوارِ گلستاں سے
کہا میں نے کہ "او گمنام! آخر ماجرا کیا ہےَ
پڑا ہے کام تجھ کو کس ستم گر آفتِ جاں سے"
ہنسا کچھ کھلکھلا کر پہلے، پھر مجھ کو جو پہچانا
تو یہ رویا کہ جوۓ خوں بہی پلکوں کے داماں سے
کہا، " میں صید ہوں اُس کا کہ جس کے دامِ گیسو میں
پھنسا کرتے ہیں طائر روز آ کر باغِ رضواں سے
اسی کے زلف و رُخ کا دھیان ہے شام و سحر مجھ کو
نہ مطلب کُفر سے ہے اور نہ ہے کچھ کام ایماں سے"
بہ چشمِ غور جو دیکھا، مِرا ہی طائرِ دل تھا
کہ جل کر ہو گیا یوں خاک میری آہِ سوزاں سے

درد ہو دل میں تو دوا کیجے

درد ہو دل میں تو دوا کیجے
دل ہی جب درد ہو تو کیا کیجے
ہم کو فریاد کرنی آتی ہے
آپ سنتے نہیں تو کیا کیجے
ان بتوں کو خدا سے کیا مطلب
توبہ توبہ، خدا خدا کیجے
رنج اٹھانے سے بھی خوشی ہوگی
پہلے دل درد آشنا کیجے
عرضِ شوخی، نشاطِ عالم ہے
حسن کو اور خود نما کیجے
دشمنی ہو چکی بہ قدرِ وفا
اب حقِ دوستی ادا کیجے
موت آتی نہیں کہیں غالب
کب تک افسوس زیست کا کیجے

جھنجھلائے ہیں، لجائے ہیں پھر مسکرائے ہیں

جھنجھلائے ہیں، لجائے ہیں پھر مسکرائے ہیں
کس اہتمام سے انہیں ہم یاد آئے ہیں
دیر و حرم کے حبس کدوں کے ستائے ہیں
ہم آج مے کدے کی ہوا کھانے آئے ہیں
اب جا کے آہ کرنے کے آداب آئے ہیں
دنیا سمجھ رہی ہے کہ ہم مسکرائے ہیں
گُزرے ہیں مے کدے سے جو توبہ کے بعد ہم
کچھ دُور عادتاً بھی قدم لڑکھڑائے ہیں
اے جوشِ گریہ دیکھ! نہ کرنا خجل مجھے
آنکھیں مری ضرور ہیں، آنسو پرائے ہیں
اے موت! اے بہشت سکوں! آ خوش آمدید
ہم زندگی میں پہلے پہل مسکرائے ہیں
جتنی بھی مے کدے میں ہے ساقی پلا دے آج
ہم تشنہ کام زُہد کے صحرا سے آئے ہیں
انسان جیتے جی کریں توبہ خطاؤں سے
مجبوریوں نے کتنے فرشتے بنائے ہیں
سمجھاتے قبلِ عشق تو ممکن تھا بنتی بات
ناصح غریب اب ہمیں سمجھانے آئے ہیں
کعبے میں خیریت تو ہے سب حضرتِ خمار
یہ دیر ہے جناب یہاں کیسے آئے ہیں

ترے در سے اٹھ کر جدھر جاؤں میں

ترے در سے اٹھ کر جدھر جاؤں میں
چلوں دو قدم اور ٹھہر جاؤں میں
اگر تُو خفا ہو تو پروا نہیں
ترا غم خفا ہو تو مر جاؤں میں
تبسّم نے اتنا ڈسا ہے مجھے
کلی مسکرائے تو ڈر جاؤں میں
سنبھالے تو ہوں خود کو تجھ بن مگر
جو چھُو لے کوئی تو بکھر جاؤں میں
مبارک خمار آپ کو ترکِ مے
پڑے مجھ پر ایسی تو مر جاؤں میں

اک پل میں اک صدی کا مزا ہم سے پوچھیے

اک پل میں اک صدی کا مزا ہم سے پوچھیے
دو دن کی زندگی کا مزا ہم سے پوچھیے
بھولے ہیں رفتہ رفتہ انہیں مدّتوں میں ہم
قسطوں میں خود کشی کا مزا ہم سے پوچھیے
آغازِعاشقی کا مزا آپ جانیے
انجامِ عاشقی کا مزا ہم سے پوچھیے
وہ جان ہی گئے کہ ہمیں ان سے پیار ہے
آنکھوں کی مخبری کا مزا ہم سے پوچھیے
جلتے دلوں میں جلتے گھروں جیسی ضَو کہاں
سرکار روشنی کا مزا ہم سے پوچھیے
ہنسنے کا شوق ہم کو بھی تھا آپ کی طرح
ہنسیے مگر ہنسی کا مزا ہم سے پوچھیے
ہم توبہ کر کے مر گئے قبلِ اجل خمار
توہینِ مے کشی کا مزا ہم سے پوچھیے

نہ ہارا ہے عشق اور نہ دنیا تھکی ہے

نہ ہارا ہے عشق اور نہ دنیا تھکی ہے
دیا جل رہا ہے ہوا چل رہی ہے
سکوں ہی سکوں ہے، خوشی ہی خوشی ہے
ترا غم سلامت، مجھے کیا کمی ہے
وہ موجود ہیں اور ان کی کمی ہے
محبت بھی تنہائی یہ دائمی ہے
کھٹک گدگدی کا مزا دے رہی ہے
جسے عشق کہتے ہیں شاید یہی ہے
چراغوں کے بدلے مکاں جل رہے ہیں
نیا ہے زمانہ، نئی روشنی ہے
جفاؤں پہ گھُٹ گھُٹ کے چُپ رہنے والو
خموشی جفاؤں کی تائید بھی ہے
مرے راہبر! مجھ کو گمراہ کر دے
سنا ہے کہ منزل قریب آ گئی ہے
خمارِ بلا نوش! تُو اور توبہ!
تجھے زاہدوں کی نظر لگ گئی ہے

وہ ہیں پاس اور یاد آنے لگے ہیں

وہ ہیں پاس اور یاد آنے لگے ہیں
محبت کے ہوش اب ٹھکانے لگے ہیں
وہی پھر مجھے یاد آنے لگے ہیں
جنہیں بھولنے میں زمانے لگے ہیں
سنا ہے ہمیں وہ بھلانے لگے ہیں
تو کیا ہم انہیں یاد آنے لگے ہیں
ہٹائے تھے جو راہ سے دوستوں کی
وہ پتھر مرے گھر میں آنے لگے ہیں
یہ کہنا تھا ان سے محبت ہے مجھ کو
یہ کہنے میں مجھ کو زمانے لگے ہیں
قیامت یقیناً قریب آ گئی ہے
خمار اب تو مسجد میں جانے لگے ہیں

ہم انہیں، وہ ہمیں بھلا بیٹھے

ہم انہیں، وہ ہمیں بھلا بیٹھے
دو گنہگار زہر کھا بیٹھے
حالِ غم کہہ کے غم بڑھا بیٹھے
تیر مارے تھے، تیر کھا بیٹھے
آندھیو! جاؤ اب کرو آرام
ہم کود اپنا دیا بجھا بیٹھے
جی تو ہلکا ہوا مگر یارو
رو کے ہم لطفِ غم گنوا بیٹھے
بے سہاروں کا حوصلہ ہی کیا
گھر میں گھبرائے در پہ آ بیٹھے
جب سے بچھڑے وہ مسکرائے نہ ہم
سب نے چھیڑا تو لب ہلا بیٹھے
ہم رہے مبتلائے دیر و حرم
وہ دبے پاؤں دل میں آ بیٹھے
اٹھ کے اک بے وفا نے دے دی جان
رہ گئے سارے با وفا بیٹھے
حشر کا دن ابھی ہے دُور خمار
آپ کیوں زاہدوں میں جا بیٹھے

کیسے چھوڑیں اُسے تنہائی پر

کیسے چھوڑیں اُسے تنہائی پر

حرف آتا ہے مسیحائی پر

اُس کی شہرت بھی تو پھیلی ہر سُو

پیار آنے لگا رُسوائی پر

ٹھہرتی ہی نہیں آنکھیں ، جاناں !

تیری تصویر کی زیبائی پر

رشک آیا ہے بہت حُسن کو بھی

قامتِ عشق کی رعنائی پر

سطح سے دیکھ کے اندازے لگیں

آنکھ جاتی نہیں گہرائی پر

ذکر آئے گا جہاں بھونروں کا

بات ہو گی مرے ہرجائی پر

خود کو خوشبو کے حوالے کر دیں

پُھول کی طرز پذیرائی پر

دل و نگاہ پہ کس طور کے عذاب اُترے

دل و نگاہ پہ کس طور کے عذاب اُترے

وہ ماہتاب ہی اُترا، نہ اُس کے خواب اُترے

کہاں وہ رُت کہ جبینوں پہ آفتاب اُترے

زمانہ بیت گیا ان کی آب و تاب اُترے

میں اُس سے کُھل کے ملوں ، سوچ کا حجاب اُترے

وہ چاہتا ہے مری رُوح کا نقاب اُترے

اُداس شب میں ،کڑی دوپہر کے لمحوں میں

کوئی چراغ ، کوئی صُورتِ گلاب اُترے

کبھی کبھی ترے لہجے کی شبنمی ٹھنڈک

سماعتوں کے دریچوں پہ خواب خواب اُترے

فصیلِ شہرِ تمنا کی زرد بیلوں پر

تراجمال کبھی صُورت سحاب اُترے

تری ہنسی میں نئے موسموں کی خوشبو تھی

نوید ہو کہ بدن سے پُرانے خواب اُترے

سپردگی کا مجسم سوال بن کے کِھلوں

مثالِ قطرۂ شبنم ترا جواب اُترے

تری طرح ، مری آنکھیں بھی معتبر نہ رہیں

سفر سے قبل ہی رستوں میں وہ سراب اُترے

ہم نے ہی لوٹنے کا ارادہ نہیں کیا

ہم نے ہی لوٹنے کا ارادہ نہیں کیا

اسنے بھی بھول جانے کا وعدہ نہیں کیا

دکھ اوڑھتے نہیں کبھی جشنِ طرب میں ہم

ملبوس دل کو تن کا لبادہ نہیں کیا

جو غم ملا ہے بوجھ اٹھایا ہے اس کا خود

سرزیرِبارِساغر و بادہ نہیں کیا

کارِ جہاں ہمیں بھی بہت تھے سفر کی شام

اس نے بھی التفات زیادہ نہیں کیا

آمد پہ تیری عطر و چراغوسبو نہ ہوں

اتنا بھی بود و باش کو سادہ نہیں کیا

چھیڑ دل کے تار پر، کوئی نغمہ کوئی دُھن

چھیڑ دل کے تار پر، کوئی نغمہ کوئی دُھن
امن کی تُو بات کر، آشتی کے گا تُو گُن
ریشہ ریشہ تار تار، چاہے ہوں ہزار بار
سُن مرے دلِ فگار، وصل کے ہی خواب بُن
لوبھیوں کی بستی میں، مایا کے ترازو سے
فیصلہ کرے گا کون، کیا ہے پاپ کیا ہے پُن؟
سانس ہیں یہ چند پَل، آج ہیں نہیں ہیں کل
ہاں امَر وہ ہو گیا، زہر جام لے جو چُن
قریہ قریہ شہر شہر، موج موج لہر لہر
نام تیرا لے اسد، مہرباں کبھی تو سُن

آرزوئے بہار لاحاصِل

آرزوئے بہار لاحاصِل
عشقِ ناپائدار لاحاصِل
قیدِ فطرت میں تُو ہے پروانے
تیرا ہونا نثار لاحاصِل
ہے شفاعت اگر بُروں کے لیے
نیکیوں کا شمار لاحاصِل
دلِ دنیا ہے سنگِ مرمر کا
لاکھ کر لو پکار، لاحاصِل
شعر و گُل میں ڈھلے اسد لمحے
کب رہا انتظار لاحاصِل

نہ سرا ملا ہے کوئی، نہ سراغ زندگی کا

نہ سرا ملا ہے کوئی، نہ سراغ زندگی کا
یہ ہے میری کوئی ہستی، کہ ہے داغ زندگی کا
یہی وصل کی حقیقت، یہی ہجر کی حقیقت
کوئی موت کی ہے پروا، نہ دماغ زندگی کا
یہ بھی خوب ہے تماشا، یہ بہار یہ خزاں کا
یہی موت کا ٹھکانہ، یہی باغ زندگی کا
یہ میں اُس کو پی رہا ہوں، کہ وہ مجھ کو پی رہا ہے
مرا ہم نفَس ازَل سے، ہے ایاغ زندگی کا
اسد اُس سے پھر تو کہنا، یہی بات اک پرانی
میں مسافرِ شبِ ہجر، تُو چراغ زندگی کا

سمندروں کے اُدھر سے کوئی صدا آئی


سمندروں کے اُدھر سے کوئی صدا آئی

دلوں کے بند دریچے کُھلے، ہَوا آئی

سرک گئے تھے جو آنچل، وہ پھر سنور سے گئے

کُھلے ہُوئے تھے جو سر، اُن پہ پھر رِدا آئی

اُتر رہی ہیں عجب خوشبوئیں رگ و پے میں

یہ کس کو چُھو کے مرے شہر میں صبا آئی

اُسے پکارا تو ہونٹوں پہ کوئی نام نہ تھا

محبتوں کے سفرمیں عجب فضا آئی

کہیں رہے وہ، مگر خیریت کے ساتھ رہے

اُٹھائے ہاتھ تو یاد ایک ہی دُعا آئی

رقص میں رات ہے بدن کی طرح

رقص میں رات ہے بدن کی طرح

بارشوں کی ہوا میں بن کی طرح

چاند بھی میری کروٹوں کا گواہ

میرے بستر کی ہر شکن کی طرح

چاک ہے دامن قبائےِ بہار

میرے خوابوں کے پیرہن کی طرح

زندگی، تجھ سے دور رہ کر، میں

کاٹ لوں گی جلا وطن کی طرح

مجھ کو تسلیم، میرے چاند کہ میں

تیرے ہمراہ ہوں گہن کی طرح

بار ہا تیرا انتظار کیا

اپنے خوابوں میں اک دلہن کی طرح

کمالِ ضبط کو خود بھی تو آزماؤں گی

کمالِ ضبط کو خود بھی تو آزماؤں گی

میں اپنے ہاتھ سےاس کی دلہن سجاؤں گی

سپرد کر کے اسے چاندنی کے ہاتھوں میں

میں اپنے گھر کے اندھیروں کو لوٹ آؤں گی

بدن کے کرب کو وہ بھی سمجھ نہ پائے گا

میں دل میں روؤں گی، آنکھوں میں مسکراؤں گی

وہ کیا گیا رفاقت کے سارے لطف گئے

میں کس سے روٹھ سکوں گی، کسے مناؤں گی

اب اُس کا فن تو کسی اور سے ہوا منسوب

میں کس کی نظم اکیلے میں گُنگناؤں گی

وہ ایک رشتہ بے نام بھی نہیں لیکن

میں اب بھی اس کے اشاروں پہ سر جھکاؤں گی

بچھا دیا تھا گلابوں کے ساتھ اپنا وجود

وہ سو کے اٹھے تو خوابوں کی راکھ اٹھاؤں گی

سماعتوں میں اب جنگلوں کی سانسیں ہیں

میں اب کبھی تری آواز سُن نہ پاؤں گی

جواز ڈھونڈ رہا تھا نئی محّبت کا

وہ کہہ رہا تھا کہ میں اُس کو بھول جاؤں گی

اب آئے چارہ ساز کہ جب زہر کِھل چُکا

اب آئے چارہ ساز کہ جب زہر کِھل چُکا

جب سوزنِ ہوا میں پرویا ہو تارِ خوں

اے چشمِ انتظار ! ترا زخم سِل چُکا

آنکھوں پہ آج چاند نے افشاں چُنی تو کیا

تارہ سا ایک خواب تو مٹی میں مِل چُکا

آئے ہوائے زرد کہ طوفان برف کا

مٹّی کی گود کر کے ہری، پُھول کھِل چُکا

بارش نے ریشے ریشے میں رَس بھر دیا ہے اور

خوش ہے کہ یوں حسابِ کرم ہائے گِل چُکا

چُھو کر ہی آئیں منزلِ اُمید ہاتھ سے

کیا راستے سے لَوٹنا، جب پاؤں چِھل چُکا

اُس وقت بھی خاموش رہی چشم پوش رات

جب آخری رفیق بھی دُشمن سے مِل چُکا

کیسی بے چہرہ رُتیں آئیں وطن میں اب کے

کیسی بے چہرہ رُتیں آئیں وطن میں اب کے

پُھول آنگن میں کِھلے ہیں نہ چمن میں اب کے

برف کے ہاتھ ہی، ہاتھ آئیں گے، اے موجِ ہوا

حِدتیں مجھ میں، نہ خوشبو  بدن میں، اب کے

دُھوپ کے ہاتھ میں جس طرح کُھلے خنجر ہوں

کُھردرے لہجے کی نوکیں ہیں کرن میں اب کے

دل اُسے چاہے جسے عقل نہیں چاہتی ہے

خانہ جنگی ہے عجب ذہن و بدن میں اب کے

جی یہ چاہے، کوئی پھر توڑ کے رکھ دے مجھ کو

لذتیں ایسی کہاں ہوں گی تھکن میں اب کے

نم ہیں پلکیں تری اے موجِ ہَوا، رات کے ساتھ

نم ہیں پلکیں تری اے موجِ ہَوا، رات کے ساتھ

کیا تجھے بھی کوئی یاد آتا ہے برسات کے ساتھ

روٹھنے اور منانے کی حدیں ملنے لگیں

چشم پوشی کے سلیقے تھے، شکایات کے ساتھ

تجھ کو کھو کر بھی رہوں، خلوتِ جاں میں تیری

جیت پائی ہے محبت نے عجب، مات کے ساتھ

نیند لاتا ہُوا، پھر آنکھ کو دُکھ دیتا ہُوا

تجربے دونوں ہیں وابستہ ہات کے ساتھ

کبھی تنہائی سے محروم نہ رکھّا مُجھ کو

دوست ہمدرد ہیں کتنے مری ذات کے ساتھ

دھنک دھنک مری پوروں کے خواب کر دے گا

دھنک دھنک مری پوروں کے خواب کر دے گا

وہ لمس میرے بدن کو گلاب کر دے گا

قبائے جسم کے ہر تار سے گزرتا ہُوا

کرن کا پیار مجھے آفتاب کر دے گا

جنوں پسند ہے دل اور تجھ تک آنے میں

بدن کو ناؤ، لُہو کو چناب کر دے گا

میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی

وہ جھوٹ بولے گا، اورلا جواب کر دے گا

اَنا پرست ہے اِتنا کہ بات سے پہلے

وہ اُٹھ کے بند مری ہر کتاب کر دے گا

سکوتِ شہرِ سخن میں وہ پُھول سا لہجہ

سماعتوں کی فضا خواب خواب کر دے گا

اسی طرح سے اگر چاہتا رہا پیہم

سخن وری میں مجھے انتخاب کر دے گا

مری طرح سے کوئی ہے جو زندگی ا پنی

تُمہاری یاد کے نام اِنتساب کر دے گا

یارب! مرے سکوت کو نغمہ سرائی دے

یارب! مرے سکوت کو نغمہ سرائی دے

زخمِ ہُنر کو حوصلہ لب کشائی دے

لہجے کو جُوئے آب کی وہ نے نوائی دے

دُنیا کو حرف حرف کا بہنا سنائی دے

رگ رگ میں اُس کا لمس اُترتا دکھائی دے

جو کیفیت بھی جسم کو دے، انتہائی دے

شہرِ سخن سے رُوح کو وہ آشنائی دے

آنکھیں بھی بند رکھوں تو رستہ سجھائی دے

تخیئلِ ماہتاب ہو، اظہارِ آئینہ

آنکھوں کو لفظ لفظ کا چہرہ دکھائی دے

دل کو لہو کروں تو کوئی نقش بن سکے

تو مجھ کو کربِ ذات کی سچی کمائی دے

دُکھ کے سفر میں منزلِ نایافت کُچھ نہ ہو

زخمِ جگر سے زخمِ ہُنر تک رسائی دے

میں عشق کائنات میں زنجیر ہوسکوں

مجھ کو حصارِ ذات کے شہر سے رہائی دے

پہروں کی تشنگی پہ بھی ثابت قدم رہوں

دشتِ بلا میں، رُوح مجھے کربلائی دے

وہ تو خوشبو ہے، ہواؤں میں بکھر جائے گا

وہ تو خوشبو ہے، ہواؤں میں بکھر جائے گا

مسئلہ پُھول کا ہے، پُھول کدھر جائے گا

ہم تو سمجھے تھے کہ اِک زخم ہے، بھر جائے گا

کیا خبر تھی کہ رگِ جاں میں اُتر جائے گا

وہ ہواؤں کی طرح خانہ بجاں پھرتا ہے

ایک جھونکا ہے جو آئے گا، گُزر جائے گا

وہ جب آئے گا تو پھر اُس کی رفاقت کے لیے

موسمِ گُل مرے آنگن میں ٹھہر جائے گا

آخرش وہ بھی کہیں ریت پہ بیٹھی ہو گی

تیرا یہ پیار بھی دریا ہے ،اُتر جائے گا

مجھ کو تہذیب کے برزخ کا بنایا وارث

جُرم یہ بھی مرے اجداد کے سر جائے گا

زندگی سے نظر ملاؤ کبھی

زندگی سے نظر ملاؤ کبھی

ہار کے بعد مسکراؤ کبھی

ترکِ اُلفت کے بعد اُمید وفا

ریت پر چل سکی ہے ناؤ کبھی!

اب جفا کی صراحتیں  بیکار

بات سے بھرسکا ہے گھاؤ کبھی

شاخ سے موجِ گُل تھمی ہے کہیں !

ہاتھ سے رُک سکاہے بہاؤ کبھی

اندھے  ذہنوں سے سوچنے والو

حرف میں روشنی ملاؤ کبھی

بارشیں کیا زمیں کے دُکھ بانٹیں

آنسوؤں سے بُجھا الاؤ کبھی

اپنے اسپین کی خبر رکھنا

کشتیاں تم اگر جلاؤ کبھی!

نیند تو خواب ہے اور ہجر کی شب خواب کہاں

نیند تو خواب ہے اور ہجر کی شب خواب کہاں

اِس اماوس کی گھنی رات میں مہتاب کہاں

رنج سہنے کی مرے دل میں تب و تاب کہاں

اور یہ بھی ہے کہ پہلے سے وہ اعصاب کہاں

مَیں بھنور سے تو نکل آئی، اور اب سوچتی ہوں

موجِ ساحل نے کیا ہے مجھے غرقاب کہاں

مَیں نے سونپی تھی تجھے آخری پُونجی اپنی

چھوڑ آیا ہے مری ناؤ تہہِ آب کہاں

ہے رواں آگ کا دریا مری شریانوں میں

موت کے بعد بھی ہو پائے گا پایاب کہاں

بند باندھا ہے سَروں کا مرے دہقانوں نے

اب مری فصل کو لے جائے گا سیلاب کہاں

جستجو کھوئے ہُوؤں کی عُمر بھر کرتے رہے

جستجو کھوئے ہُوؤں کی عُمر بھر کرتے رہے

چاند کے ہمراہ ہم ہر شب سفر کرتے رہے

راستوں کا علم تھا ہم کو نہ سمتوں کی خبر

شِہر نامعلوم کی چاہت مگر کرتے رہے

ہم نے خود سے بھی چھپایا اور سارے شہر کو

تیرے جانے کی خبر دیوار و دَر کرتے رہے

وہ نہ آئے گا ہمیں معلوم تھا، اس شام بھی

انتظار اس کا مگر کچھ سوچ کر، کرتے رہے

آج آیا ہے ہمیں بھی اُن اُڑانوں کا خیال

جن کو تیرے زعم میں، بے بال و پر کرتے رہے

شدید دُکھ تھا اگرچہ تری جُدائی کا

شدید دُکھ تھا اگرچہ تری جُدائی کا

سِوا ہے رنج ہمیں تیری بے وفائی کا

تجھے بھی ذوق نئے تجربات کا ہو گا

ہمیں بھی شوق تھا کُچھ بخت آزمائی کا

جو میرے سر سے دوپٹہ نہ ہٹنے دیتا تھا

اُسے بھی رنج نہیں میری بے ردائی کا

سفر میں رات جو آئی تو ساتھ چھوڑ گئے

جنھوں نے ہاتھ بڑھایا تھا رہنمائی کا

ردا چھٹی مرے سر سے، مگر میں کیا کہتی

کٹا ہُوا تو نہ تھا ہاتھ میرے بھائی کا

ملے تو ایسے، رگِ جاں کو جیسے چُھو آئے

جُدا ہُوئے تو وہی کرب نارسائی کا

کوئی سوال جو پُوچھے، تو کیا کہوں اُس سے

بچھڑنے والے! سبب تو بتا جدائی کا

میں سچ کو سچ ہی کہوں گی، مجھے خبر ہی نہ تھی

تجھے بھی علم نہ تھا میری اس بُرائی کا

نہ دے سکا مجھے تعبیر،خواب تو بخشے

میں احترام کروں گی تری بڑائی کا

دُعا کا ٹوٹا ہُوا حرف، سرد آہ میں ہے

دُعا کا ٹوٹا ہُوا حرف، سرد آہ میں ہے

تری جُدائی کا منظر ابھی نگاہ میں ہے

ترے بدلنے کے با وصف تجھ کو چاہا ہے

یہ اعتراف بھی شامل مرے گناہ میں ہے

اب دے گا تو پھر مجھ کو خواب بھی دے گا

میں مطمئن ہوں، مرا دل تری پناہ میں ہے

بکھر چُکا ہے مگر مُسکراکے ملتا ہے

وہ رکھ رکھاؤ ابھی میرے کج کلاہ میں ہے

جسے بہار کے مہمان خالی چھوڑ گئے

وہ اِک مکا ن ابھی تک مکیں کی چاہ میں ہے

یہی وہ دن تھے جب اِ ک دوسرے کو پایا تھا

ہماری سالگرہ ٹھیک اب کے ماہ میں ہے

میں بچ بھی جاؤں تو تنہائی مار ڈالے گی

مرے قبیلے کا ہر فرد قتل گاہ میں ہے!

سوچوں تو وہ ساتھ چل رہا ہے

سوچوں تو وہ ساتھ چل رہا ہے

دیکھوں تو نظر بدل رہا ہے

کیوں بات زباں سے کہہ کے کھوئی

دل آج بھی ہاتھ مَل رہا ہے

راتوں کے سفر میں وہم ساتھا

یہ میں ہوں کہ چاند چل رہا ہے

ہم بھی ترے بعد جی رہے ہیں

اور تُو بھی کہیں بہل رہا ہے

سمجھا کے ابھی گئی ہیں سکھیاں

اور دل ہے کہ پھر مچل رہا ہے

ہم ہی بُرے ہو گئے __کہ تیرا

معیارِ وفا بدل رہا ہے

پہلی سی وہ روشنی نہیں اب

کیا درد کا چاند ڈھل رہا ہے

خیال و خواب ہُوا برگ و بار کا موسم

خیال و خواب ہُوا برگ و بار کا موسم

بچھڑ گیا تری صُورت، بہار کا موسم

کئی رُتوں سے مرے نیم وا دریچوں میں

ٹھہر گیا ہے ترے انتظار کا موسم

وہ نرم لہجے میں کچھ تو کہے کہ لَوٹ آئے

سماعتوں کی زمیں پر پھوار کا موسم

پیام آیا ہے پھر ایک سروقامت کا

مرے وجود کو کھینچے ہے دار کا موسم

وہ آگ ہے کہ مری پور پور جلتی ہے

مرے بدن کو مِلا ہے چنار کا موسم

رفاقتوں کے نئے خواب خُوشنما ہیں مگر

گُزر چکا ہے ترے اعتبار کا موسم

ہَوا چلی تو نئی بارشیں بھی ساتھ آئیں

زمیں کے چہرے پہ آیا نکھار کا موسم

وہ میرا نام لیے جائے اور میں اُس کا نام

لہو میں گُونج رہا ہے پکار کا موسم

قدم رکھے مری خُوشبو کہ گھر کو لَوٹ آئے

کوئی بتائے مُجھے کوئے یار کا موسم

وہ روز آ کے مجھے اپنا  پیار  پہنائے

مرا غرور ہے بیلے کے ہار کا موسم

ترے طریقِ محبت پہ با رہا سوچا

یہ جبر تھا کہ ترے اختیار کا موسم

دل پہ اِک طرفہ قیامت کرنا

دل پہ اِک طرفہ قیامت کرنا

مُسکراتے ہوئے رخصت کرنا

اچھی آنکھیں جو ملی ہیں اُس کو

کچھ تو لازم ہُوا وحشت کرنا

جُرم کس کا تھا سزا کِس کو مِلی

کیا گئی بات پہ حُجت کرنا

کون چاہے گا تمھیں میری طرح

اب کِسی سے نہ محبت کرنا

گھر کا دروازہ کھلا رکھا ہے

وقت مِل جائے تو زحمت کرنا

سبز موسم کی خبر لے کے ہَوا آئی ہو

سبز موسم کی خبر لے کے ہَوا آئی ہو

کام ، پت جھڑ کے اسیروں کی دُعا آئی ہو

لَوٹ آئی ہو وہ شب جس کے گُزر جانے پر

گھاٹ سے پائلیں بجنے کی صدا آئی ہو

اِسی اُمید میں ہر موجِ ہَوا کو چُوما

چُھو کے شاید میرے پیاروں کی قبا آئی ہو

گیت جِتنے لِکھے اُن کے لیے اے موج صبا!

دل یہی چاہا کہ تو اُن کو سُنا آئی ہو

آہٹیں صرف ہَواؤں کی ہی دستک نہ بنیں

اب تو دروازوں پہ مانوس صدا آئی ہو

یُوں سرِ عام، کُھلے سر میں کہاں تک بیٹھوں

کِسی جانب سے تو اَب میری ردا آئی ہو

جب بھی برسات کے دن آئے، یہی جی چاہا

دُھوپ کے شہر میں بھی گِھر کے گھٹا آئی ہو

تیرے تحفے تو سب اچھے ہیں مگر موجِ بہار!

اب کے میرے لیے خوشبوئے حِنا آئی ہو

کُو بہ کُو پھیل گئی بات شناسائی کی

کُو بہ کُو پھیل گئی بات شناسائی کی

اُن نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی

کیسے کہہ دوں کہ مُجھے چھوڑ دیا اُس نے

بات تو سچ ہے مگر بات ہے رُسوائی کی

وہ کہیں بھی گیا، لَوٹا تو مرے پاس آیا

بس یہی بات اچھی مرے ہرجائی کی

تیرا پہلو، ترے دل کی طرح آباد ہے

تجھ پہ گُزرے نہ قیامت شبِ تنہائی کی

اُس نے جلتی ہُوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا

رُوح تک آ گئی تاثیر مسیحائی کی

اب بھی برسات کی راتوں میں بدن ٹوٹتا ہے

جاگ اُٹھتی ہیں عجب خواہشیں انگڑائی کی

لمحات وصل کیسے حجابوں میں کٹ گئے

لمحات وصل کیسے حجابوں میں کٹ گئے

وہ ہاتھ بڑھ نہ پائے کہ گھونگھٹ سمٹ گئے

خوشبو تو سانس لینے کو ٹھہری تھی راہ میں

ہم بدگماں ایسے کہ گھر کو پلٹ گئے

ملنا__دوبارہ ملنے کو وعدہ__جُدائیاں

اتنے بہت سے کام اچانک نمٹ گئے

روئی ہوں آج کھُل کے، بڑی مُدتوں کے بعد

بادل جو آسمان پہ چھائے تھے، چھٹ گئے

کِس دھیان سے پرانی کتابیں کھلی تھیں کل

آئی ہوا تو کِتنے ورق ہی اُلٹ گئے

شہرِ وفا میں دُھوپ کا ساتھی کوئی نہیں

سُورج سروں پہ آیا تو سائے بھی گھٹ گئے

اِتنی جسارتیں تو اُسی کو نصیب تھیں

جھونکے ہَوا کے، کیسے گلے سے لپٹ گئے

دستِ ہَوا نے جیسے درانتی سنبھال لی

اب کے سروں کی فصل سے کھلیان پٹ گئے

یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں، یہ لوگوں نے پھیلائی ہیں

یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں، یہ لوگوں نے پھیلائی ہیں
تم انشا جی کا نام نہ لو کیا انشا جی سودائی ہیں
ہیں لاکھوں روگ زمانے میں ، کیوں عشق ہے رسوا بیچارا
ہیں اور بھی وجہیں وحشت کی ، انسان کو رکھتیں دکھیارا
ہاں بے کل بےکل رہتا ہے ، ہو پیت میں جس نے جی ہارا
پر شام سے لے کر صبح تلک یوں کون پھرے گا آوارہ
یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں، یہ لوگوں نے پھیلائی ہیں
تم انشا جی کا نام نہ لو کیا انشا جی سودائی ہیں
یہ بات عجیب سناتے ہو ، وہ دنیا سے بے آس ہوئے
اک نام سنا اور غش کھایا ، اک ذکر پہ آپ اداس ہوئے
وہ علم میں افلاطون سنے، وہ شعر میں تلسی داس ہوئے
وہ تیس برس کے ہوتے ہیں ، وہ بی-اے،ایم-اے پاس ہوئے
یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں، یہ لوگوں نے پھیلائی ہیں
تم انشا جی کا نام نہ لو کیا انشا جی سودائی ہیں
گر عشق کیا ہے تب کیا ہے، کیوں شاد نہیں آباد نہیں
جو جان لیے بن ٹل نہ سکے ، یہ ایسی بھی افتاد نہیں
یہ بات تو تم بھی مانو گے، وہ قیس نہیں فرہاد نہیں
کیا ہجر کا دارو مشکل ہے؟ کیا وصل کے نسخے یاد نہیں؟
یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں، یہ لوگوں نے پھیلائی ہیں
تم انشا جی کا نام نہ لو کیا انشا جی سودائی ہیں
وہ لڑکی اچھی لڑکی ہے، تم نام نہ لو ہم جان گئے
وہ جس کے لانبے گیسو ہیں، پہچان گئے پہچان گئے
ہاں ساتھ ہمارے انشا بھی اس گھر میں تھے مہمان گئے
پر اس سے تو کچھ بات نہ کی، انجان رہے، انجان گئے
یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں، یہ لوگوں نے پھیلائی ہیں
تم انشا جی کا نام نہ لو کیا انشا جی سودائی ہیں
جو ہم سے کہو ہم کرتے ہیں، کیا انشا کو سمجھانا ہے؟
اس لڑکی سے بھی کہہ لیں گے ، گو اب کچھ اور زمانہ ہے
یا چھوڑیں یا تکمیل کریں ، یہ عشق ہے یا افسانہ ہے؟
یہ کیسا گورکھ دھندا ہے، یہ کیسا تانا بانا ہے ؟
یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں، یہ لوگوں نے پھیلائی ہیں
تم انشا جی کا نام نہ لو کیا انشا جی سودائی ہیں

تو ہے مشہور دل آزار یہ کیا

تو ہے مشہور دل آزار یہ کیا
تجھ پر آتا ہے مجھے  پیار یہ کیا
جانتا ہوں کہ میری جان ہے تو
اور میں جان سے بیزار  یہ کیا
پاؤں‌ پر اُنکے گِرا میں‌ تو کہا
دیکھ ہُشیار خبردار یہ کیا
تیری آنکھیں تو بہت اچھی ہیں
سب انہیں کہتے ہیں بیمار یہ کیا
کیوں مرے قتل سے انکار یہ کیوں
اسقدر ہے تمہیں دشوار یہ کیا
سر اُڑاتے ہیں وہ تلواروں سے
کوئی کہتا نہیں سرکار یہ کیا
ہاتھ آتی ہے متاعِ الفت
ہاتھ ملتے ہیں خریدار  یہ کیا
خوبیاں کل تو  بیاں ہوتی تھیں
آج ہے شکوۂ اغیار یہ کیا
وحشتِ دل کے سوا اُلفت میں
اور ہیں سینکڑوں آزار یہ کیا
ضعف رخصت نہیں دیتا افسوس
سامنے ہے درِ دلدار یہ کیا
باتیں سنیے تو پھڑک جائیے گا
گرم ہیں‌ داغ کے اشعار یہ کیا

تم کو چاہا تو خطا کیا ہے بتا دو مجھ کو

تم کو چاہا تو خطا کیا ہے بتا دو مجھ کو
دوسرا کوئی تو اپنا سا دکھا دو مجھ کو
دل میں سو شکوۂ غم پوچھنے والا ایسا
کیا کہوں حشر کے دن یہ تو بتا دو مجھ کو
مجھ کو ملتا ہی نہیں‌ مہر و محبت کا نشان
تم نے دیکھا ہو کسی میں تو بتا دو مجھ کو
ہمدمو اُن سے میں‌کہہ جاؤں گا حالت دل کی
دو گھڑی کے لیئے دیوانہ بنا دو مجھ کو
بے مروت دل بیتاب سا ہو جاتا ہے
شیوۂ خاص تم اپنا ہی سکھا دو مجھ کو
تم بھی راضی ہو تمہاری بھی خوشی ہے کہ نہیں
جیتے جی داغ یہ کہتا ہے مِٹا دو مجھ کو

ہجر کی پہلی شام کے سائے دور افق تک چھائے تھے

ہجر کی پہلی شام کے سائے دور افق تک چھائے تھے
ہم جب اس کے سحر سے نکلے سب راستے ساتھ لائے تھے
جانے وہ کیا سوچ رہا تھا اپنے دل میں ساری رات
پیار کی باتیں کرتے کرتے اس کے نین بھر آئے تھے
میرے اندر چلی تھی آندھی ٹھیک اسی دن پت جھڑ کی
جس دن اپنے جوڑے میں اس نے کچھ پھول سجائے تھے
اس نے کتنے پیار سے اپنا کفر دیا نذرانے میں
ہم اپنے ایمان کا سودا جس سے کرنے آئے تھے
کیسے جاتی میرے بدن سے بیتے لمحوں کی خوشبو
خوابوں کی اس بستی میں کچھ پھول میرے ہمسائے تھے
کیسا پیارا منظر تھا جب دیکھ کے اپنے ساتھی کو
پیڑ پہ بیٹھی اک چڑیا نے اپنے پر پھیلائے تھے
رخصت کے دن بھیگی آنکھوں اس کا وہ کہنا ہائے قتیل
تم کو لوٹ ہی جانا تھا تو اس نگری کیوں آئے تھے

پہلے تو اپنے دل کی رضا جان جائیے

پہلے تو اپنے دل کی رضا جان جائیے
پھر جو نگاہِ یار کہے مان جائیے
پہلے مزاجِ راہ گزر جان جائیے
پھر گردِ راہ جو بھی کہے مان جائیے
کچھ کہہ رہی ہیں آپ کے سینے کی دھڑکنیں
میری سنیں تو دل کا کہا مان جائیے
اک دھوپ سی جمی ہے نگاہوں کے آس پاس
یہ آپ ہیں تو آپ پہ قربان جائیے
شاید حضور سے کوئی نسبت ہمیں بھی ہو
آنکھوں میں جھانک کر ہمیں پہچان جائیے